تحریر : انجینئر افتخار چودھری سچ کہا جاتا ہے کہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے بھاگ جاتے ہیں۔جدہ سے ملک محی الدین کافون تھا کہ نیپال میں زلزلہ آیا تو پاکستانی سفارت خانے کے عملے نے اپنے بچوں کو امداد لے جانے والے جہازوں میں واپسی پ سوار کرا دیا ہے اور دیگر پاکستانی دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔ یہ کوئی آج کی بات ہے یہی کچھ جب ڈھاکہ فال ہوا تو یہ لوگ کرتے رہے۔ملک یمن میں گزشتہ ماہ حالات خراب ہوئے تو پاکستانی سفارت خانے کا عملہ اپنے بچوں کو بغل میں دبا کر اسلام آباد پہنچ گیا کہتے ہیں سفارت خانے کا فون ایک یمنی ملازم کے حوالے کیا اور محصورپاکستانی اپنے ملک جانے کے لئے سفارت خانے کے نمبر پر ڈائل کرتے رہ گئے۔محصور پاکستانی وہ تھے جو نکلنے کا راستہ ڈونڈھتے رہے وہ نہیں جو ہم سے بہتر ملک بنگلہ دیش میں مزے کر رہے ہیں۔یمن سفارت خانے کی حالت یہ تھی وہاں فون کرنے والوں کو آواز آتی رہی رقم الزی طلبت غیر موجود فی خد مة۔ اور جنہوںنے انہیں پاکستان پہنچانا تھا وہ پہنچ گئے پاکستان۔ تو بیٹھی بین بجا۔
مجھے بڑا دکھ ہے بڑی تکلیف ہے یقین کیجئے عمر جدہ میں گزاری ایک بار خشک سالی کا بسیرہ پاکستان میں ہوا میں نے اور احسن رشید مرحوم نے اس وقت کے قونصل جنرل سے ملاقات کی اور کہا کہ ہمیں مل جل کر بلوچستان کے مفلوک لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہئے جواب ملا ابھی تک ہمیں اسلام آباد سے کوئی حکم نہیں ملا۔ایک اصتلاح ہوتی ہے آئوٹ آف دی باکس کی میرا خیال ہے انہیں ایک قدم آگے بڑھ کر مدد کرنی چاہئے تھی ہم نے تو اپنا حصہ ڈالا۔ پاکستان کی قسمت والے یہ ایسے جواریے ہیں جن پر پولیس کی ریڈ ہو وہ بھی اپنے ملحقات لے جاتے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنوں کو چھوڑ بھاگ لئے۔ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ شاہانہ ٹھاٹ سے وہاں رہیں لیکن مشکل وقت میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ٹھہرنا آپ کے فرائض میں شامل ہے۔
اللہ تعالی انجینئر رفیع کو غریق رحمت کرے ایک بار سفیر پاکستان کے بلاوے پر وہاں سفارت خانے گئے سفیر پاکستان نے اس روز سبز کرتہ اور سفید شلوار پہن رکھی تھی تقریر میں فرمانے لگے میرے دروازے آپ لوگوں کے لئے کھلے ہیں جب چاہیں آئیں رفیع مرحوم اقبال کا بوڑھا شاہین نے للکرا مار کر کہا تمہاری ٹانگیں ٹوٹی ہیں تم ہمارے دروازوں پر کیوں نہیں آتے؟ آہ!نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں۔ایسا کہنے والوں کے لئے ترحیل رکھی ہوئی ہے۔ہلیا نئیں تئے سلیا نئیں۔اب کفگیروں کا راج ہے جنہوں نے بات آگے چلانی ہوتی ہے انہوں نے بچوں کے لئے نوکریاں لے رکھی ہیں۔جدہ کی صحافت اور سرکار کے گھر کے برتن مانجھنے ایک ہی ہے،جو ہیں جن میں ہمت ہے انہیں صحافی مانا ہی نہیں جاتا۔مجھے سوال کرنے دیجئے اپنے ان سفیر صاحب اور قونصل جنرل سے کہ پاکستان کے مزدور بن لادن کمپنی کے کیمپوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں کتنی بار آپ چپکے سے وہاں گئے ہیں پاکستانیوں کے ساتھ جب بھی کوئی ناروا سلوک ہوتا ہے تو آپ ان کی داد رسی کے لئے کب پہنچتے ہیں۔
Imran Khan
کل عمران خان سعودی عرب کے شہر میں گری بلڈنگ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے مجھے میڈیا سیل سے فون آیا کہ چودھری صاحب بتائیے وہاں کیا ہوا ہے سنا ہے ایک بلڈنگ گری ہے اور اس کے نیچے پچاس کے قریب پاکستانی دب کر شہید ہو گئے ہیں۔چیک کر کے بتائیں میرے پاس کیا ذریعہ ہو سکتا تھا میں نے جدہ میں اپنے دیرینہ دوست کو فون کیا جو پریس قونصلر ہیں اور کئی سالوں سے وہاں ہیں جن کا کام ہی خبر رکھنا اور خبر دینا ہے ان سے بات کی تو جواب ملا یہ خبر جھوٹ ہے۔مجھے ان پر اعتماد تھا آگے جواب پہنچا دیا اور تھوڑی ہی دیر میں پتہ چلا کہ حادثہ ہو گیا ہے۔اس کے بعد میرا سعودی عرب کا ٣٥ سالہ تجربے کا وہی حال ہوا جو نواز شریف کی تجربہ کار ٹیم کا ہے۔
اب میں ان سے کیا کہوں اگر اپنے اس پیارے دوست سے مطالبہ کروں کہ استعفی دے دیں تو اس سے کیا وہ مستعفی ہو جائیں گے۔پیا کے ساتھ جن کی یاری ہو ان سے کون مستعفی ہونے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔قبلہ حسین نواز کے ساتھ ڈائریکٹ قونصلیٹ کا عملہ نہ میرے کہنے پر استعفی دے گا اور نہ ہی مسلم لیگ نون کے مرزا الطاف کے مطالبے پر۔ ریاض بخاری پی پی دور میں چیختا رہا یہ مسلم لیگ کے دور میں خاندان رائے ونڈیہ جو چاہے وہی ہو گا۔عمران خان کے دھرنے کے حادثاتی خاتمے کے بعد تو حالات کسی اور ہی سمت جا رہے ہیں پٹرول کا سستا ہونا گیا اب جلد ہی دیکھئے کا پٹرول سو کا ہو جانے والا ہے۔
میں اس عملے کی سہولت کے خلاف نہیں ہوں مگر ان کی کارکردگی پر تو سوال اٹھتا ہے جو ایک آدھ آگے بڑھ کر کمیونٹی کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان کے پروں کو ڈر ہے ۔جس ملک کے پاس وزیر خارجہ ہی نہ ہو اس کی خارجہ پالیسی خاک ہو گی۔فاطمی اور سرتاج عزیز جنہیں حافظ حسین نے سر صاف عزیز کہا تھا ٹیکے لگا کر اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں ان سے کیا امید رکھیں گے۔سعودی عرب میں اٹھارہ لاکھ پاکستانی ہیں مجھے سفیر پاکستان بتائیں جوحالات جا رہے ہیں اور جو کام ہماری پارلیمینٹ کر چکی ہے اس کے نتیجے میں اگر پاکستانیوں کو نکالنا پڑا تو آپ کیا کریں گے۔مجھے کئی بار نوجوان صحافیوں نے فون کر کے بتایا کہ ہمیں دھمی آمیز فون آتے ہیں۔ایک بار ایک کانفرنس قونصلیٹ کے عملے کے رویے کے خلاف ہوئی تو اسے بلکل الٹ چھپوا دیا گیا۔خدا کے لئے ہوش کے ناخن لیں اپنے لوگوں کو ڈرائیں دھمکائیں نہیں اس بار یاد رکھنا کسی مشرف ظالم کا دور نہیں عوام وہ مکروہ کھیل دوبارہ نہیں ہونے دیں گے۔٢٠٠٢ میں اسی سفارت خانے نے پاکستانیوں کو سعودی جیلوں میں بند کرایا تھا اب ایسا ہونا ناممکن ہے۔
Pakistan
ان سفیران وطن کے بارے میں پالیسی بنائیں۔اللہ نہ کرے جو دھمکیاںحسن نصراللہ اور حوثیوں کے سردار عبدالمالک دے رہے ہیں ان کے بارے میں سوچیں کہ ان ملت دشمنوں نے اگر ارض مقدس پر وار کیا تو کیا کرنا ہو گا۔اللہ نے کرے اگر میرے ہوتے ہوئے ہوا تو اسی زہرہ کے سامنے جان دوں گا جہاں بیٹھ کر اس ملک خداداد کی پر امن فضائوں میں قہقہے لگاتا رہا۔اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اٹھارہ لاکھ پاکستانیوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔کیا ہمارے یہ ذمہ داران اس قابل ہیں خاص طور پر ڈھاکہ عدن اور کھٹمنڈو کے واقعات کے بعد یہ پاکستانیوں کو سنبھالیں گے۔مجھے ان کی صلاحیتوں پر تو شک نہیں مگر ان کی نیتوں کے فتور کو جانتا ہوں۔ترحیل میں بند پاکستانیوں سے نقد رقوم لے کر ڈیپورٹ کرنے والی کالی بھیڑیں ٢٠٠٢ میں بھی ادھر تھیں اور اب بھی ہیں۔البتہ کسی بھی ادارے میں اچھے برے ضرور ہوتے ہیں۔میں ان سطور کے ذریعے حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کو آ گاہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانیوں کی جانیں آپ کی توجہ چاہتی ہیں ۔ہماری وزارت خارجہ چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے ۔یہ کام ان سے نہیں ہونے والا۔پاکستانی کسی بھی ملک میں ہوں اللہ نہ کرے وہ کسی آفت میں مبتلا ہوں اتنا تو ضرور کریں کہ وہاں سے آخری فیملی سفیر پاکستان قونصل جنرل پاکستان قونصلر صاحبان کی ہو۔سب سے پہلے بن لادن کے چھ سو ریال لینے والے پاکستانی چڑھایا جائے۔(خاکم بدہن) وہ وقت ہی نہ آئے۔لیکن اگر نیپال یمن سے یہ لوگ بھاگے ہیں اور پاکستانیوں کو حالات کے رحم و کرم پے چھوڑا گیا تو کیا کل کسی اور ملک میں نہیں ہو گا۔
جب سے کال سنی ہے مجھے ایسا لگا کہ وہ اٹھارہ لاکھ اگر مشکل میں آ گئے تو کیا ہو گا۔کیا پاکستانی سوڈان جائیں گے؟یمن میں تو جگہ نہیں دبئی ابو ظہبی پہلے ہی مخالف بنا دیے گئے ہیں۔اس حکومت نء میرے نزدیک جو سب سے اچھا کام کیا ہے وہ سعودی عرب کے بار بار کے دورے ہیں۔پچھلی بار جو جنرل راحیل شریف وہاں گئے ہیں اس سے عزت سادت بچی ہے ورنہ اگر کوئی جنرل اسلم بیگ جیسا ہوتا تو پاکستانیوں کا کباڑہ ہو چکا ہوتا۔رہی پارلیمینٹ کی قراردادیں یہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تو اسلام آباد کی قرارداد کون پوچھے گے۔پاکستانیوں پر اسی دن ڈرون گرائے گئے جس دن قرارداد مذمت پاس ہوئی۔ان خدشات کو اگر الگ سے رکھ بھی دیا جائے تو ہمیں اپنے سفارتی کیڈر کو درست کرنا ہو گا۔جہاز سے آخری مسافر کی واپسی تک کپتان اور اس کی ٹیم کو وہیں کھڑا رہنا ہو گا۔اگر کوئی چوہے کی طرح بھاگا تو پاکستان میں چوہے مار گولیاں بھی ملتی ہیں۔
مجھے اس ٹیم میں شاہد امین جیسے لوگ بھی نظر آتے ہیں اللہ انہیں اور ان جیسوں کو سلامت رکھے اور مشکل کی گھڑی میں انہیں ہمت و توفیق دے کہ وہ پاکستانیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ہم اسے سراہتے ہیں مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کے ایک کروڑ لوگ باہر ہیں۔میاں محمد نے ان مسافروں کے بارے میں کہا تھا کہ ککھ انہاں تو بھارے۔گھر سے نکنے والے جو طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ رکھتے ہیں پھر بھی ان سفیروں سے بہتر ہیں جو مشکل وقت اپنا سنوارنے میں لگ جاتے ہیں ان اصلی سفیروں کا خیال رکھا جائے۔