تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی بلاشبہ عید باعثِ مسرت بھی ہے، اور لمحہ فکریہ بھی ‘صدیوں سے ہمارے آبائو اجداد نے نہ جانے کتنی عیدیں منائی ہیں، اور روز محشر تک اہل اسلام منا تے رہیں گے، لیکن اگر ہم گزرنے والی عیدوں کا بغور مشاہدہ کریں، تو کتنی اِیسی عیدیں ہونگیں، جو حقیقی معنوں میں عید کہلا سکتی ہیں، شاید ایسی چند ہی عیدیں گزری ہونگی، جو محبوب خدا ۖ کے دور میں خلفا راشدین کے دور میں حقیقی معنوں میں خوشی اور حقیقی مسرت کا احساس دلاتی ہوں، ‘عیدیں اہل اسلام کے لیے قومی ثقافتی زندگی کے دو اہم مواقع ہیں، ھادی دو جہاں ۖ نے خوب خوشی منانے کا بھی فرمایا ہے، اور خو شی کا اظہار فطری اور بر محل بھی ہے، لیکن اسلام نے خوشی اور غمی کے موقعوں پر کچھ حدود بھی قائم کر دی ہیں، مسلمانوں میں عیش میں یاد ِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا نظر آنا چاہیے، ‘اسلام نے خو شی کی اجازت اِس حد تک دی ہے کہ غفلت کا رنگ نہ نظر آئے اور غم کو اتنا طاری نہ کیا جائے کہ زندگی عذاب لگنے لگے۔
ہمارے ہاں عید کے مو قع پر شراب نوشی ‘ناچ گانے کی محفل کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے، معاشرے کے دولت مند بااثر افراد اپنی نشے سرور میں دھت ایسی محافل کا انتظام ضروری سمجھتے ہیں، جن کے کرنے سے معاشرے میں اُن کا قد بڑا ہوتا ہے، اور دوسروں پر ان کی دولت اور اثر رسوخ کا بھی رعب چڑھتا ہے، رمضان المبارک کے مہینے میں بھوک پیا س کثرت عبادات کا جو فلسفہ دین اسلام کا مغز ہے، اُس کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں، ‘ما ہ رمضان کا مقصد بھوک پیاس اور تقوے سے ایسی تربیت حاصل کی جائے جو سال کے باقی 11 مہینوں میں بھی نظر آئے، لیکن عید کے دن کی ابتدا کے ساتھ ہی رمضان کا سارا رنگ ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے، رنگ و نور ناچ گانا اور نشے میں دھت ہو کر ماہ ِ رمضان کی روح کو گدلا کر دیا جاتا ہے، ‘مہنگے ترین ملبوسات پہن کر غریبوں مسکینوں لا چاروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ٹی وی پر وگرامز جو رمضان میں اسلامی تعلیمات میں ڈوبے نظر آتے تھے، ایک دن کے بعد ہی ناچ گانے شروع ہو جاتے ہیں، رمضان کا مقصد غریبوں کی بھوک پیاس اور ضرورتوں کا خیال تھا، لیکن عید کے دن اِس فلسفے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، عید کا تصور اور مقصد محض ناچ گانا، اور تہوار نہیں ہے، بلکہ یہ دن بھی خدا کے شکر اور عبادات کا ہے، اپنے پالنہار سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کا دن ہے خدا سے روحانی تعلق استوار کرنے کا دن ہے، اِس لیے عید الفطر دراصل روزہ دار مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث ہے، اور عید الاضحی کے پس منظر میں حضرت ابراہیم اور اُن کے فرزند حضرت اسماعیل کی بے پناہ استقامت اور عظیم قربانی کا عکس کار فرما ہے، یعنی دونوں تہواروں میں با مقصد اور احساس عبدیت کا رنگ ہے۔
وطن عزیز میں اہل وطن خوشیوں میں غرق ہیں، جبکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عید ایک دن ہے یا اِس کی اہمیت کچھ اور بھی ہے کیا عید صرف مہنگے چمکیلے ملبوسات اور روپیہ اڑانے کا نام ہے، سینما گھروں ہوٹلوں میں جاکر دولت لٹانے کا نام ہے، لمبی چوڑی مہنگی دعوتیں اشتہا انگیز کھانے کھلانے کا نام ہے، کیا عید ایک سماجی ثقافتی تہوار ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عید دوسروں کے احساس کا نام ہے دوسروں سے خوشیاں شیئر کرنے کا نام ہے، اور دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا نام ہے، عید کا دن اپنے اندر خاص مقصدیت رکھتا ہے، خاص روحانی رنگ ہونا چاہیے، عید کے دن مہنگے اجلے ملبوسات پہننا کافی نہیں، بلکہ دل و دماغ کا اجالا رکھنے کی ضرورت ہے، عید دستر خوان سجانے کا نہیں کردار سنوارنے کا نام ہے۔
اگر ہم اجتماعی طور پر دیکھیں تو سچ تو یہی ہے، کہ ہمیں عید منانے کا حق نہیں ہے، کیونکہ جو قوم کھربوں روپے کی مقروض ہو جس کا پیدا ہونے والا ہر بچہ پہلے سے ہی لاکھوں روپے کا مقروض ہو، اس کو پیدا ہونے کے بعد فضول خر چی کرنے کی بجائے اپنے سر کا قرضہ اتارنے کا سوچنا چاہیے، جس قوم کی اکثریت جہالت میں غرق ہو جو نسل درنسل جہالت میں ہی ڈوبی آرہی ہو، اُسے اپنا تن آراستہ کرنے کی بجائے اپنے من کو دماغ کو شعور کو علم کے نور سے روشن کرنا چاہیے، جس قوم کا بچہ بچہ آئی ایم ایف اور ترقی یافتہ ملکوں کے رحم و کرم پرہو، اُسے ایک دن کے لیے دولت لٹانے کی نہیں، بلکہ مستقل طور پر معاشی کفا لت حاصل کرنے کی منصوبہ کرنی چاہیے، جو قوم سیاسی طور پر اخلاقی طو رپر دیوا لیے پن کا شکار ہو، اُس کو اپنی سیاست سوچ اخلاقیات کو صحیح سمت میں استوار کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو قوم مختلف طبقوں میں تقسیم ہوچکی ہو، جو دوسروں پر کافر کافر کے گولے داغتی ہو، جن کی مسجدوں سے دہشت گردوں کی عطاریں برآمد ہوتی ہوں، کفر جھوٹ تکبر غرور فریب لوٹ مار جن کی ہڈیوں میں اتر چکی ہو، کرپشن جن کی ترجیح اول بن چکی ہوں، جو دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتے ہوں، جو دوسروں کو دھو کا دے کر خوش ہوں، وہ ایک دن ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر چند گھڑیاں گزار کر، اگر حقیقی عید کا مقصد پانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں، تو وہ بہت بڑی خوش فہمی کاشکار ہیں۔
جو قوم صرف ایک دن ہنسے اور سال کے باقی دن روئے تو ایک دن کا تبسم کیا معنی رکھتا ہے، جو قوم ایک دن پیٹ بھرکا کھانا کھائے اور اس کے کروڑوں ہم وطن سارا سال روٹی کے نوالے کو ترسیں، تو ایک دن کا خوب کھایا پیا کس کام کا ‘جو قوم عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملے اور اگلے ہی دن ایک دوسرے کو کاٹنا شروع کر دے، تو ایسی جپھیاں کس کام کی جو عید کے دن فطرانے کے چند روپے با نٹ کر اور بڑی عید پر بچا کچھا گوشت غریبوں میں بانٹ کر خوش ہوتی ہو، اور سال کے باقی دونوں میں غریبوں کو دھکے مارتی ہو ایسے فطرانے اور گوشت کا کیا فائدہ ہم انفرادی اور اجتماعی طو رپر جس قدر زہریلے ہو چکے ہیں، ‘مطلبی ہوچکے ہیں ‘مفاد پرستی میں غرق ہوچکے ہیں، ‘کیا ہم عید کے حقیقی پیغام کو اپناتے ہیں، کیا ہم عید کی خوشیاں غریبوں میں بانٹتے ہیں، ‘کیا رمضان المبارک کا رنگ سارا سال ہم پر قائم رہتا ہے، ‘کیا ہم اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتیں دوسروں میں بانٹتے ہیں، ‘کیا ہم دوسرے غریبوں کا درد محسوس کرتے ہیں، اگر ہم عید کے دن ناچ گانے کھانے پینے میں دھت رہیں گے، تو ہم خدا کے قریب ہونے کی بجائے دور ہو جائیں گے، خدا سے روحانی تعلق استوار ہونے کی بجائے خدا سے دور ہوتے جائیں گے، جس طرح خوشبو کے بغیر پھول ‘تپش کے بغیر آگ ‘کرن کے بغیر چاند ‘لو کے بغیر سورج ‘ٹھنڈک کے بغیر برف اور آہ سرد کے بغیر عشق نامکمل ہے، اِسی طرح جب تک عید کا تہوار ہم غریبوں کے ساتھ مل کر نہیں مناتے، عید دوسروں میں خوشی لانے کا سبب نہیں بنتی، ہمارے درمیان پیار محبت کے ترانے نہیں، بجتے اخوت روا داری اور پیار کے گلستان نہیں مہکتے، اُس وقت تک ہم عید کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہیں گے، پتہ نہیں ہماری قوم کو کب حقیقی عید کی خوشیاں نصیب ہونگیں، کب ہم حقیقی خوشیوں سے لبریز حقیقی عید منائیں گے۔