تحریر : سالار سلیمان مئی کے اواخر میں مالیاتی سال برائے 2017-18کے بجٹ کااعلان کیا گیا۔یہ حکومت وقت کی جانب سے آخری بجٹ ہے جبکہ وہ اپنے اقتدار کے چار سال مکمل کر کے اپنی آئینی مدت کے آخری سال میں ہے۔بجٹ پاکستا ن کے ہر طبقے کیلئے ہوتاہے تاہم آج کے اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ اس بجٹ کے تعمیراتی یا رئیل اسٹیٹ کے شعبے پر اثرات کو دیکھ سکیں۔
اب جبکہ گزشتہ بجٹ میں نافذ کیا گیا فکسڈ ٹیکس اس بجٹ میں ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ فکسڈ ٹیکس بلڈرز اور ڈویلپرز پر نافذ تھا۔ دوسری جانب بلڈنگ میٹریل میں استعمال ہونے والا سریا اور سیمنٹ مہنگا ہو جائے گا۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی یعنی ایف ای ڈی میں اضافہ ہو اہے جس سے سیمنٹ کی قیمت میں فی کلو گرام 1.25روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سریے کی قیمت میں بھی 9فیصد سے 10.5فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ اب وہ لوگ جو تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہیں’اُن کو قیمتوں میں اضافے کے اثرات کا سامنا کرنا ہوگا۔اس امر کا تعین ابھی ہونا باقی ہے کہ اس کے درحقیقت کیا اثرات ہونگے تاہم مشاہدے کے طور پر ایسا کہا جا سکتاہے کہ پراپرٹی کا شعبہ اس سے متاثر ہوگا۔ جب تعمیر ی لاگت میں اضافہ ہوگا تو فروخت بھی مہنگی ہو گی۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے کم آمدنی والے طبقے کیلئے گھر کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ایک منصوبہ بندی بھی سامنے آئی ہے۔ حکومت کی جانب سے 40فیصد کی کریڈٹ گارنٹی فراہم کی جائے گی اور اس مقصد کیلئے بینکوں اور مالیاتی اداروں کیلئے 6ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔ ایک گھر کو ایک ملین تک انشورڈ کیا جا سکے گا۔
اس بجٹ میںتین درجوں پر مشتمل کیپٹل گین ٹیکس یعنی سی جی ٹی بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اُس کی جگہ یکساں ریٹ قائم کیا جائے گا، تاہم سی جی ٹی فائلرکیلئے 15فیصد اور نان فائلر کیلئے 20فیصد ہوگی۔ اس بجٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بھی خصوصی طور پر بات کی گئی ہے ۔وزیر خزانہ اسحا ق ڈار نے اُن کوملک کا اثاثہ قرار دیا ہے ۔اُنہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حکومت چاہتی ہے کہ پاکستانی تارکین وطن ملکی انفراسٹرکچر کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں۔ یہ واضح رہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سب سے بڑی ترجیح اپنے وطن میں پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرنا ہوتی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی پورٹل زمین ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرون ملک مقیم 93فیصد پاکستانی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے متمنی ہیں۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہے ۔ اب حکومت ایک جانب توایسا نہیں چاہتی ہے کہ بیرون ملک مقیمپاکستان رئیل اسٹیٹ سے بالکل ہی پیچھے ہٹ جائیں اور اس سیکٹر پر زد پڑے، تاہم وہ یہ بھی نہیں چاہتی ہے کہ ساری کی ساری سرمایہ کاری اسی ایک شعبے میں ہو جائے ۔ حکومتی اقدامات کو اگر توازن قائم رکھنے کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہمیں مثبت اقدام نظر آئے گا۔ وزیر خزانہ کی تقریر میں اس بات کا عندیہ موجو دہے کہ سی ڈی اے اسلام آباد کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مخصوص ایک سیکٹر کا اعلان بھی جلد کیا جائے گا۔
یہ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوجانے کے بعد اب زیر بحث ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی بجٹ میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے یہ فیصلے ہوتے ہیں۔ فی الوقت رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے وفاقی حکومت کا بجٹ کسی حد تک متوازی ہے ۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں لگنے والے ٹیکسوں کا اثر پاکستانی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر ہوا تھا اور امید ہے کہ اس سال مارکیٹ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔