تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرے سامنے میری زندگی کا عجیب و غریب شادی شدہ جوڑا بیٹھا ہوا تھا اُن کے سوا ل نے میرے دماغ کے سرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا میں اور کو ئی اُن کے اِس سوال یا خوف کے با رے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ‘ایک ارب پتی جو ڑا جن کے پاس زندگی کی تما م سہو لیات اور نعمتیں وافر مقدار میں مو جود تھیں ‘دولت کی دیوی اِن پر اِس قدر مہربان ہو ئی کہ اِن کے رشتے دار اور دوست احباب بھی لاکھ پتی بن گئے جو اِن کے قریب ہوا اُس کے گھر میں بھی دولت کی ریل پیل ہو گئی ‘میں اپنی زندگی میں لا کھوں ہزاروں لوگوں سے مل چُکا ہوں ‘ایسا جوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا اور نہ ہی کسی نے ایسا سوا ل کیا تھا ‘اُن کی گفتگو حرکات و سکنا ت سے دولت کی چمک واضح طو ر پر نظر آرہی تھی ‘دونوں دنیا کی مہنگی ترین جہازی گاڑی میں میرے پاس آئے اور آتے ہی سوال کیا کہ میں حیران رہ گیا ‘خا وند نے پراسرار طورپر دائیں با ئیں دیکھا اور سر گو شی کے لہجے میں بو لا جناب آپ سے ایک دعا کر انی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ دولت سے نوازا ہے ‘میں مٹی کو ہاتھ لگا تا ہوں تو وہ سونا بن جاتی ہے ‘میں جو چیز خریدتا ہوں وہ دنوں میں ڈبل ٹرپل ہو جا تی ہے۔
میرے پاس آپکی سوچ سے بھی زیا دہ دولت ہے ‘آپ خدا سے یہ دعا کریں کہ ہمیں اب مزید دولت نہیں چاہیے ‘اب اللہ تعالیٰ یہ دولت کسی اور کو دے دے ‘میں حیران نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا اب دونوں میاں بیوی اِس خو ف میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالی سے ایسی دعا کریں کہ وہ ہمیں یہ دولت کا خزانہ استعمال کر نے کی مہلت دے کہیں ہمیں کچھ ہو نہ جا ئے ‘بیوی کو یہ خو ف تھا کہ کہیں اُس کا خاوند دوسری شادی نہ کر لے جبکہ وہ اِس خوف میں مبتلا تھا کہ اُس کے بیٹے بیما ر نہ ہو جا ئیں یا عیا شی میں نہ پڑ جائیں ‘دونوں جتنی دیر میرے پاس بیٹھے رہے فقیروں کی طرح بلکتے رہے کہ اللہ تعالی ہمیں اِس دولت کوانجوائے کرنے کامو قع دے یعنی دونوں دولت کے سنہری جال کے پرندے بن کر خو ف کا شکا ر ہو کر میرے پاس آئے تھے۔
x میں نے حسبِ معمول دونوں کو خدمت خلق کا کہا تو وہ چلے گئے لیکن میرے سوچ کے دریچے واکر گئے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو دولت مند ہو کر بھی خوف کا شکار ہیں ‘خو ف اور حزن دو کیفیا ت ہیں جن کا تعلق انسان کی سوچ فکر اور باطن سے ہے کہ دل و دما غ کی حالتیں ہیں Anxietyیعنی خو اہ مخواہ کی بے قراری بے چینی اضطراب ڈپریشن اداسی ما یوسی شرمندگی اِن دونوں کیفیات کا اگر ہم بغور مشاہد ہ کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی چیز کو حاصل کر نے کی تڑپ ‘اپنانے کا جنون خوف کے زمرے میں آتا ہے ‘بے چین انسان کسی کو پانے کے لیے بے چین ہو جا تا ہے کہ کہیں یہ نہ چھن جائے اِس نعمت سے محروم نہ ہو جائوں ‘کسی کے کھونے کے احساس سے وہ اداس بے قرار خو ف زدہ رہتا ہے اگر وہ واقعی چلی جائے تو پھر انسان مایوس خو ف زدہ ہو جاتا ہے ‘کر ہ ارض پر پھیلے اربوں انسان ما دیت پر ستی میں غر ق اسی سو چ میں ہی بے قرار نظر آتے ہیں اِن انسانوں کے ہجوم میں روشنی کے ٹمٹما تے چراغ صرف اللہ کے دوست ہی ایسے نظر آتے ہیں جو نہ تو کسی غیر ضروری چیز کے طالب ہو تے ہیں اور نہ ہی کسی چیز کے چھن جا نے پر وہ کسی خو ف یا ما یوسی کا شکار ہو تے ہیں اور جو چیز کسی کی ہے ہی نہیں اُس کے کھونے کا خو ف کیسا ‘حقیقی خو شی کی کلید اعظم ہی راز ہے جس سے مسرت کے حقیقی چشمے پھو ٹتے ہیں۔
آپ آج کے انسان کا مطالعہ کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ مادی انسانوں نے حصول ِلذت و مسرت کے لیے پو ری دنیا میں اندھیر مچا رکھا ہے اگر اُن کے خیالا ت کو جان سکیں تو یہی انکشاف ہو تا ہے کہ وہ سب کچھ پا کر بھی خو ف و حزن کے ہی قیدی نظر آتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ پا نے کے جنون سے آزاد ہو کر خو د بھی بے خوف ہو جائیں اور دوسروں کو بھی غمگین نہ کریں ‘حقیقی خو شی کا راز یہ نہیں ہے کہ کسی مجبور بے کس کو آنسو بہا نے پر مجبور کر لیا یا کسی کی لاش پر اپنی خو شی کا محل تعمیر کریں بلکہ مظلوم کو گلے لگا کر آنسو پو نچھ کر لطف اٹھا نے کا سلیقہ آنا چاہیے ‘یتیم بچی کے سرے دو پٹہ اتا ر کر نہیں اُس کے سر پر شفقت بھرا ہا تھ رکھ کر مسرت ملتی ہے کسی بے آسرا کو پنا ہ دے کر خو شی ملتی ہے کسی یتیم کو جھڑک کر نہیں دھکے دے کر دور ہٹا نے سے نہیں بلکہ اُس کے آنسو پو نچھ کر اُسے سینے سے لگا نے سے حقیقی خو شی ملتی ہے ‘خو ش وہ شخص نہیں ہے جو خو ش حال ہو خو ش لباس ہو اُس کے میز پر دنیا جہاں کے لذیذ مشروب اور کھا نے چُنے ہوں بلکہ حقیقی خو ش تو وہ ہے جو خوش رہنے کاآرٹ جانتا ہو اِسی عرصے کامیاب وہ شخص نہیں جس کو ہر قدم پر کامیابی ملتی ہو یاجن پر کامیابیوں کی برسات جاری ہو بلکہ خو ش تو وہ ہے جس کے تھوڑے پیسوں میں بر کت ہو جس کو کسی سے کام ہی نہ پڑے جس کے گھر میں بیما ری پریشانی ہی نہ آئے۔
خو بصورت خوشحال زندگی کا راز یہ ہے کہ جس میں خو شی کی تلاش نہ ہو بلکہ خو شی خو د ہی پھو ٹ پڑے کام نکلوایا نہ جائے بلکہ کا م پڑنے کی نو بت ہی نہ آئے ‘کر ہ ارض پر اربوں انسانوں میں ایسا کو ن ہو گا جو ایسی خو شی اور کامیا بی کا طالب نہ ہو ‘اہل دنیا نے خو شی کے اپنے ہی طریقے وضع کر لیے ہیں ‘ہر انسان کامیابی اور خوشی کے حصول میںاِس قدر دیوانگی سے دوڑ رہا ہے کہ وہ حقیقی خو شی کے اصل معنی کو بھول چکا ہے ‘نا خو شی اور نا کامی کی اصل وجہ اندیشہ یا خو ف ہے اِس دنیا میں حقیقی خو شی اور کامیابی کا تصور تو کیا جا سکتا لیکن حا صل کر نا تقریبا نا ممکن ہے ‘انسان خو ف سے آزاد نہیں ہو تا ‘دنیا جہاں کے کھا نوں کے بعد ہی بھو ک با قی رہتی ہے ‘مزے دار مشروبات کے بعد بھی پیا س با قی رہتی ہے ‘کامل صحت میں بھی بیما ری جان نہیں چھو ڑتی ‘جوانی آخر بڑھا پے کی دہلیز پار کر تی ہے مسکراہٹ کے بعد آنسو آتے ہیں۔
کامیابی کے بعد ناکامی عروج کے بعد زوال زندگی کا خا تمہ مو ت تا ریخ انسانی ایسے واقعا ت سے بھری پڑی ہے لیکن انسان پھر سبق لینے کو تیا ر نہیں ‘دولت اقتدار شہرت کے آسمان پر جگمگا تے کے بعد چھن جا نے کا خو ف جا ری رہنا ہے ‘حقیقی خو شی سٹور سے لا نے والی کو ئی چیز نہیں یہ تو ایک کیفیت ہے اور یہ تو گھر بیٹھے بھی مل جاتی ہے کیا سقراط نے دانش اپنی عزت نفس بیچ کر تی تھی افلا طون کو دما غ اپنی غیرت بیچنے پر ملا ؟ کیا اولیا ء کرام کو لا زوال شہرت بھو ک پیاس کے نتیجے میں ملی ‘کیا داتا گنج بخش ، خو اجہ معین الدین چشتی اجمیری کو ولا یت کسی حکمران کی خو شامد کے عوض ملی ‘کیا مو لا نا روم اور سعدی شیرازی شہرت کے آسمان پر ہو س میں مبتلا ہو کر چمکے ؟ کیا غزالی ابن عرابی رازی کو یہ مقام دولت کے بل بو تے پر ملا ‘کیا اقبال کی قلندری کے پیچھے دولت کی ریل پیل نظر آتی ہے ؟ بلکل بھی نہیں انسان اگر پانے کے خما ر اور کھو جاتے کے آزاد سے آزاد ہو جائے تو وہ سوکھی روٹی کے نوالے میںمر غن غذا کا نشہ پا تا ہے اُسے کچے چھپر میںقصرِ مرمر کا سکون ملتا ہے یہ بھی سچ ہے کہ جو نشہ ٹھکرانے میں ہے وہ دامن پھیلا نے میں کبھی نہیں ہو سکتا ہے حقیقی خو شی صرف اُسے حا صل ہو تی ہے جو خو ف حزن سے پا ک ہو جا ئیں جو خدمت خلق کے نشے میں ڈوب جا ئیں یا اللہ تعالی کے رنگ میں رنگے جائیں جو اللہ کے دوست بن جا ئیں کیونکہ جو اللہ کا دوست بن جائے وہ ہر قسم کے خو ف سے آزاد ہو جاتاہے قرآن مجید سورة یو نس میں ارشاد گرامی ہے ۔آگاہ رہو اللہ کے دوست نہ خو ف میں مبتلا ہو ئے اور نہ حزن کا شکا ر ہو تے ہیں۔