موت ایک وہ اٹل حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ موت صرف مرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے خالق مالک رازق سے ملاقات کا ایک زریعہ ہے۔ ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: ”آپۖ ان سے کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تم کو آپکڑے گی، پھر تم اس پاک ذات کی طرف جائے جاؤگے جو ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جاننے والی ہے، پھر وہ تم کو سب کئے ہوئے کام جتائے گی (اور ان کا بدلہ دے گی)” (سورہ جمعہ رکوع1)
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کثرت سے یاد رکھنا امیدوں کو مختصر ہونے کا سبب ہے۔ دنیا کی طرف بے اعتنائی کا ذریعہ ہے، گناہوں سے توبہ کرتے رہنے پر ابھارنے کا سبب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اکرمۖ کی مجلس میں ایک نوجوان کھڑے ہوئے اور عرض کیا ”حضور! مؤمنین میں سب سے زیادہ سمجھ دار کون ہے؟”
آپۖ نے فرمایا ”موت کو کثرت سے یاد کرنے والا اور اس کے آنے سے پہلے اس کیلئے بہترین تیاری کرنے والا۔” افسوس آج ہم ایمان کی کمزوری کی وجہ موت سے بھاگتے ہیں جب کسی کو مرتے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ مرنے والے کی موت لکھی تھی مگر میں نے ابھی کب مرنا ہے ؟ بہت وقت ہے انشااللہ موت کی تیاری کر لونگا۔ یہ ہماری سستی لاپروائی اور ایمان کی کمزری ہے ۔ اللہ پاک موت سے قبل موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ایک ایسا شخص جو موت سے بچ زندہ رہنا چاہتا تھا جس کو دنیا ” مائیکل جیکسن ” کے نام سے جانتی تھی ! زندہ رہنے کے لئے مائیکل جیکسن نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت’ جلد’ نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ سفید رنگت والہ خوبصورت اورنسوانی نقوش کا مالک مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی’ یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی’ یہ البم بھی کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا۔مائیکل جیکسن ملکوں ملکوں’ شہر شہرگیا’ موسیقی کے شو کئے اوران شوز سے کروڑوں ڈالر کمائے۔گورے مائیکل جیکسن نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔
اس کے بعد ماضی کی باری آئی’ مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی کو بائے بائے کہہ دیا’ گورے مائیکل جیکسن نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے’ اس نے کرائے پر گورے ماںباپ بھی حاصل کر لئے اور اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔گورے مائیکل جیکسن نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی بھی کر لی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا دئیے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرا لیا۔ ڈیبی رو کے بطن سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی۔اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی’ اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑا لی لہٰذگورے مائیکل جیکسن کی آخری نفرت یا خواہش کی باری تھی۔ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔
موت سے بچ کر زندہ رہنے کے لئے گورے مائیکل جیکسن نے کیا کیا جتن کیئے ہیں انسانی عقل سوچ کر دنگ رہ جاتی ہے ۔ مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کیلئے دلچسپ حرکتیں کرتاتھا’ مثلاً وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا’ وہ جراثیم’ وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا۔ وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے۔ یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے’ اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا’ گورے مائیکل جیکسن اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں’ گردوں’ آنکھوں’ دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا’ یہ ڈونر تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کر دینا تھے چنانچہ اسے یقین تھا وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے گا لیکن پھر 25جون کی رات آئی’ اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی’ اس کے ڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئرڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پرجمع کر لیا’یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے تو یہ اسے ہسپتال لے گئے اور وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی’ جو ننگیپاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا’ جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھا لیتا تھا’ جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا تھا۔ وہ شخص 50سال کی عمر میں صرف تیس منٹ میں انتقال کر گیا۔
اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کر گئی۔ مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبر گوگل پر دس منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی’ یہ گوگل کی تاریخ کا ریکارڈ تھا اور اس ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو 25منٹ تک اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی۔ مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا احتیاط کی وجہ سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا’ وہ سر سے گنجا تھا’ اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں’ اس کے کولہے’ کندھے’ پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔ وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ”پین کلرز” کا محتاج ہو چکا تھا چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز’ یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہیں بچا سکے اور وہ ایک دن چپ چاپ اُس جہان شفٹ ہو گیا جس میں ہر زندہ شخص نے پہنچنا ہے اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔ مائیکل جیکسن کی موت ایک اعلان ہے’ انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ موت اور اس موت کو لکھنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی راک سٹار ہو یا کوئی فرعون وہ دو ٹن مٹی کے بوجھ سے نہیں بچ سکتا۔ وہ قبر کو شکست نہیں دے سکتا لیکن حیرت ہے ہم مائیکل جیکسن کے انجام کے بعد بھی خود کو فولاد کا انسان سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہم موت کو دھوکہ دے دیں گے’ ہم ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہیں۔ گورے مائیکل جیکسن کی موت ایک لمحہ فکریہ ہے ایک عبرت ہے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے یااللہ نبی کریم غفور رحیم ۖ کے وسیلے سے موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما۔ موت کے وقت دیدار ِ مصطفےٰ ۖ نصیب فرما۔ اور حالت ایمان میں موت نصیب فرما۔آمین ثم آمین