تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ اس میں حقیقت میں کو ئی شک نہیں کہ برصغیر میں 4 سوسال بعد پھر تخت نشین کیلئے جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔سیاستدانوں سے معذرت کے ساتھ ”خصوصا پاکستان میں” پاماناکیس فیصلے کے بعد ایک دوسرے کا گریبان پکڑے سیاستدان ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں اس ملک کی شہرت اور نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ رویہ تبدیل نہ ہوا تو عوام کی رائے سے عوام کی خدمت کے لئے نظام استوار کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس سے بے خبر فی الوقت ملک کے سیاست دان سپریم کورٹ کے احاطے میں اپنی گندی سیاست کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
یہی صورتحا ل اب شروع ہوچکی ہے ۔تاریخ گواہ کہ مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔یہ بات واضح ہے کہ مغل سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی ) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہوگیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے ۔ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے ۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہے ۔انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔
مغلوں میں جانشینی کا کوئی قانون نہیں تھا ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی جو شہزادہ اپنے حریفوں کو شکست دے دیتا وہ تخت مغلیہ کا وارث بن جاتابابر کو اپنے ماموں اور چچا سے لڑنا پڑ ااس کا بھائی جہا نگیر مرزابھی اس کے لئے دردر سر بن گیا ۔بابر کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں بادشاہ بنا اسے اپنے بھائیوں کی دشمنی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے ہر محاذپر اس کے ساتھ دشمنی کی ہمایوں کو افغان سرداروں کی مخالفت کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑامگر اس کے بھائی اسے شکست دے کر تخت دہلی حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے قدم قدم پر اسے پریشان کیا افغان سردار شیر خان سوری نے اسے شکست دے کر دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا ہمایوں دہلی چھوڑ کر لاہور پہنچا، افغان فوج نے اسے لاہور سے بھی بھگا دیا، ہمایوں شکست کھا کر ملتان جاپہنچا ۔کامران مرزا نے ملتان میں قیام کے دوران اس کی خواب گاہ کو توپ سے اڑانے کی کوشش کی۔مگر ہمایوں محفوظ رہا بالآخر وہ سندھ کے راستے ایران جاکر پناہ گزین ہوا۔ پندرہ سال بعد 1555ء میں اس نے ایک بار پھر مغل سلطنت حاصل کی مگر ایک سال سے کم عرصہ میں اس کا انتقال ہوگیا ہمایوں کے بعد اکبر بادشاہ بنا۔ کسی نے اکبر کی مخالفت نہیں کی صرف اس کا سوتیلا بھائی مرزا عبدالحکیم سازشی امراء کے بھڑکانے پر فوج لے کر لاہورپر حملہ آور ہو امگر اکبری فوج نے اسے شکست دے کر گرفتار کرلیا اس نے تمام عمر قید میں گذاری۔
اکبر کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہو ا،اس کے بیٹے خسرو نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی ۔جہانگیر نے باغی فوج کو شکست دے کر باغیوں کو سرعام پھانسی دی اور شہزادہ خسرو کو اندھاکروادیا اس نے تمام عمر قید میں گذاری۔جہانگیرکے بعد شہزادہ خرم شاہجہان کے لقب سے تخت نشین ہوا اس کی مخالفت اس کے بھائی شہزادہ شہر یار اور شہزادہ داور بخش نے کی مگر شاہجہان کے وفاداروں نے انہیں شکست دے کر گرفتار کر لیا ۔شہزادے شہریار کو اندھا کردیا گیا جبکہ شہزادہ داور بخش مارا گیا۔
1658ء میں شاہجہان کی زندگی میں ہی اس کے بیٹوں (داراشکوہ،اورنگ زیب ،شجاع اور مراد )کے درمیان تخت کے حصول کے لئے خونریز جنگیں ہوئیں جس میں اورنگ زیب کو فتح نصیب ہوئی جب کہ تمام شہزادے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہجہان کو لال قلعے میں نظر بند کردیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 1707ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جانشینی کی جنگ چھڑ گئی جس میں شہزادہ اعظم ،معظم اور کام بخش نے حصہ لیا شہزادہ معظم کامیاب رہا جبکہ دوسرے شہزادے جنگوں میں مارے گئے ۔اورنگ زیب کی وفات کے دس سال بعد کے عرصہ میں سات خون ریز جنگیں ہوئیں جس میں مغل حکومت کا بہت بڑا نقصان ہوا۔لاتعداد جرنیل،سپاہی اور جنگی فنون کے ماہرین مارے گئے ۔جس کی وجہ سے مغل یہ سلطنت کمزور ہو گئی۔
مغل حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر بہت سے صوبے دار باغی ہوگئے ۔ انہوں نے مرکز کی اطاعت سے انکار کردیا۔ بنگال کے صوبے دار علی وردی خان نے بنگال کے حکمران ہونے کا اعلان کر دیا۔ مرکزی حکومت میں اتنی ہمت نہ تھی اس کو سزا دی جاتی۔ حیدرآباد دکن کا صوبہ نظام الملک کے زیرحکومت تھا۔ اس نے بغاوت کرکے خود کو وہاں کا حاکم قرار دیا۔ مرکز نے اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ کی۔ پنجاب میں سکھ اور درانی حکومت کر رہے تھے ۔ روہیل کھنڈ کی ریاست روہیلہ سرداروں کے ماتحت تھی۔بعض علاقوں میں مرہٹے چھائے ہوئے تھے ۔ سلطنت مغلیہ سمٹ کر دہلی کے گردونواح تک رہ گئی تھی۔ کوئی ایسا مضبوط حکمران نہ تھا جو ان باغیوں کی سرکوبی کرکے یہ علاقے دوبارہ مرکز کا حصہ بناتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام ملک کو بچانے کیلئے متحد ہوجائیں ،کیونکہ پامانا کیس ، ڈان لیکس ایسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔جب مسلمان تخت نشین کیلئے جنگ شروع کی اور ہزاروں انسان قربان کردیئے اور غیرمسلم نے برصغیر قبضہ کر لیا تھا۔