تحریر : واحد علی نقشبند حضرت انسان مشرق میں ہو یا مغرب میں ، آج اس مفروضہ کو حقیقت سمجھے بیٹھاہے ،کہ دولت اور سکون لازم ملزوم ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے ،کہ دولت ہی وہ واحد زریعہ ہے جس سے راحت کے سامان حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی انسان نے حصول اطمینان کے لیے بے شمار ٹوٹکے استعما ل کئے ،مگر دلی بے چینی او ر قلبی اضطراب کوئی ایسی معمولی بیماری تو نہیں کہ معمولی نسخوں سے شفاء ہوجائے،لہذا مادہ پرست سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک بے نظیر نسخہ ڈھونڈا کہ دولت کی فروانی ہو تو سب کچھ مل سکتا ہے ۔اس کے اجزأ حاصل کر نے کے لئے انسان ہر طرف جھپٹ پڑا اور اس مادہ پرستی کے دور میں تہذیبی معراج کی خصوصیت بن کر رہ گئی ہے کہ ادمی بس دولت کمانے کی چلتی پھرتی مشین ہو۔
ہم میں معاشی دوڑ میں سبقت لے جانے اور زر پرستی کا جنون سماگیاہے ۔اور آج کا انسان بجاطور پر اس صنعتی انقلاب اور تہذیبی ترقی پر فخر کر تا ہے ۔بلکہ اس کے متعلق بڑے بلند بانگ دعوے بھی کر تا ہے کہ ہم نے انسانیت کے قافلے کو ترقی کی معراج تک پہنچادیا ہے ۔مگر !یہ سب تو جسم کے ارام کے لئے اور گوشت پوست کی راحت کے لئے ہے ۔ان سب سے دل ویسے ہی بے چین پایا جاتا ہے ،اندر جھانکنے سے تو خوف محسوس ہو تاہے ،چلیںحقائق کی دنیا سے ہی اس مفروضے کی صداقت تلاش کرتے ہیں۔
حضر ت انسان نے سکون کی خاطر تہذیب جدید کا سہارا لیا ۔اس تہذیب نے عورت کو اپنے فطری دائرہ سے نکال کر سوسائٹی کے نیلام گھر میں پہنچایا ،مگر! اس نے گھریلو زندگی کو منہدم کردیا ،جبکہ خالق کائنات نے انسان کے لیے عورت ہی کو وجہ سکون قرار دیا ۔ دولت اور سکون کا تعلق معلوم کرنے کے لیے دولت سمیٹنے والو ں کی تدبیروں پر ایک نگاہ کرنا ہی کافی ہے ۔جن کے زریعے وہ دولت سمیٹنے کے ساتھ ” ھل من مزید،، کانعرہ بھی بلند کرتے ہوئے سنائے دیتے ہیں،مثلاََزخیرہ اندوزی ،کہ کب ریٹ بڑہیں اور مہنگے دامو ں بیج دیں،چور بازاری ،قانون کی نظر وں سے بچنے کے لیے ذخیرے کو چھپانا ،انکم ٹیکس کی چوری وغیرہ ۔کارخانہ دار ،جاگیردار ،زمیندار وغیرہ دولت کے جمع کرنے کے لالچ میں جو کچھ وہ کرتے ہیں ،وہ ان کے دل کا روگ بن جاتاہے۔
Money Hungry
اسی طرح ملازمین رات دن منفی طریقے سے مال جمع کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔کیا اس سے وہ سکون پاسکتے ہیں؟ ۔معلوم ہو ا کہ دولت وجہ سکون نہیں ! بلکہ وجہ سکون مال حلال اور خدمت خلق کا جزبہ ہے ،دولت اگر حلال طریقے سے کمائی گئی ہو تو خود بخود خدمت خلق میں خرچ ہوگی۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف ”حقوق ِ،، حاصل کر نے کی صدائیں بلند ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس مقصد کے لئے بے شمار انجمنیں قائم ہوچکی ہیں۔اور حقوق کے نام پر زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کے چکر میں ہوتے ہیں۔ حقوق ہمیشہ فرائض کی ادا ئیگی سے وابستہ ہوتے ہیں ، بلکہ انہی سے پیدا ہوتے ہیں۔جو شخص اپنے فرائض منصبی ادا نہ کر ے ،خواہ وہ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو ، اس کے لئے حقوق کا مطالبہ بلاجواز ہے۔
اسلامی تعلیمات ،مال حلال کامزاج یہ ہے کہ وہ ہر فرد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف نہ صرف متوجہ کرتی ہے ،بلکہ اس کے دل میں یہ فکر پیدا کر تی ہے ،کہ کہیں فرائض کی ادئیگی میں کہیں کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔جب یہ فکر دل گھر کر جاتی ہے ،تو اس کو حقوق بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔کیو نکہ اسکا فرض دوسروں کے حقوق ہوتے ہیں۔جس کے زُمرے میں وہ خود بھی اتا ہے۔ اس سے حق تلفیوں کی شرح خود بہ خود گھٹتی چلی جاتی ہے۔
شوہر اگر اپنے فرائض ادا کرے گا ،تو بیوی کے حقوق ادا ہونگے ۔اور افسر اپنے فرائض ادا کرے گا تو ماتحت کو حقوق میلنگے۔عرض معاشرے کی خوشحالی ،امن،بھائی چارے ،کی فضا ء جب قائم ہوگی ،کہ ہر فریق اپنی زمہ داری پوری کرے ۔لیکن یہ فکر ہمارے معاشرے میں اس وقت قائم نہیں ہوسکتی ،جب تجارت اور معاملات قانون کے دائرہ کار میں ہوں۔آج ہم بہ حیثیت مسلمان زبان سے خواہ کتنا بھی اعلان کرتے ہوں،لیکن عملی زندگی میں اس کا کوئی پرتوُ نظر نہیں آتا۔ ہماری ساری دوڑ دھوپ کا محور یہ کہ مال اسباب کی گنتی میں کیسے اضافہ ہو؟ ۔یہی بات زندگی اورمعاشی سرگرمیوں کا مطمع نظر بن چکی ہے ، سچ کہا کہنے والے نے۔ گھٹتاجاتاہے خط پیمانہ بڑھتی جاتی ہے تشنگی ساقی