تحریر : عائشہ صدیقہ جب بچے تھے تو بڑے بزرگوں کو کہتے سنا تھا کہ باتیں انسان کی سوچ کی عکاس ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو اس وقت یہ ساری باتیں کسی فلسفہ سے کم نہیں لگتی تھیں اصل میں یہی باتیں حقیقت تھیں اور رہیں گی۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے جب میں نے خواجہ آصف کے منہ سے نکلے کچھ الفاظ سنے تو مجھے عجیب لگا وہ الفاظ یہ تھے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے یہ سب مجھے اس لئے عجیب محسوس ہوا کیوں کہ پاکستان میں بہت ہی نفیس قسم کا کلچر ہے یہ بات تو ہوئی پرانی یہاں تک کہ ایک وزیر صاحب نے دوسری پارٹی کے ایم این اے کے لئے غلط الفاظ استعمال کئے مگر کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اس وزیر کی بات کو دوسروں کو بتا سکے مگر پھر اس وزیر نے حسبِ معمول معافی مانگی اور اپنا فرض ادا کر دیا اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ اگر آپ پاکستان کی سیاست میں کسی کی ماں بہن ایک کر دیں تو اس کی زیادہ سے زیادہ سزا چھ دن کی ہو سکتی ہے۔
جب ایک اووزیر نے دوسری پارٹی کی رکنِ اسمبلی کو ڈرامہ کیون کا ٹائیٹل دیا جس پر وہ احتجاج کرتی رہ گئی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینکی۔ مردوں کے تو کیا کہنے خواتین نے بھی چپ کی چادر اوڑ لی اور خاتون کی حمایت میں ایک لفظ مذمت تک کا نہ بولا آخر کا ر جب کسی نے اس وزیر سے جواب طلبی کی تو اس وزیر نے معافی مانگ لی ۔لگتا تو یوں ہے کہ پاکستان کی سیاست اس گرے ہوئے لہجے کے بغیر چل نہیں سکتی۔ جی ہاں میں بات کر رہی ہوں عمران خان کی جس کی زبان کبھی بھی اس کے اختیار میں نہیں رہتی عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ وہ کیسے لب و لہجے کے مالک ہیں۔
چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام ان سب چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اس کے ساتھ ساتھ یہ سب لب ولہجے سب الفاظ تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں اور تاریخ ان کو غلط ہی ثابت کرے گی انشا اللہ پاکستان کا مستقبل اب روشن ہاتھوں میں ہے۔
تاریخ میں ایسی کئی قوموں کے قصے درج ہیں جنہوں نے لب و لہجے کے تقدس کو پامال کیا اور بعد میں ان قوموں کی مثال بازاروں میں بکنے والے سفید جسموں کی مانند کم تر اور حقیر ہو کر رہ گئی۔