تحریر : ایم سرور صدیقی شنیدہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی ایک بار پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہورہے ہیں شمولیت شاید اتنا مناسب لفظ نہیں دوسرے لفظوںمیں کہا جاسکتاہے وہ واپس اپنے گھر جارہے ہیں کچھ عرصہ قبل شور تھا کہ انہیں گورنر پنجاب بنایا جارہاہے لیکن جاوید ہاشمی نے یہ پیش کش قبول نہ کی بلاشبہ مخدوم جاوید ہاشمی ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ کا نام ہے ۔بنگلہ دیش نامنظور تحریک سے اب تلک بہت سے اعزازات ان کامقدر بنے وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں جو 2بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف کے صدر کے عہدے پر فائز رہے انہوںنے جب مسلم لیگ ن کو چھوڑکرتحریک ِ انصاف میں جانے کافیصلہ کیا کارکنوںکی آہ وبکا اور بیگم کلثوم نواز کے آنسو بھی نہ روک سکے یہ میاں نوازشریف کیلئے ایسا دھچکا تھا جس کی کسک کارکن آج تک محسوس کررہے ہیں میاں نواز شریف کے برے وقت کے ساتھی مخدوم جاویدہاشمی نے جس اندازسے ان دونوں جماعتوںکو چھوڑا کارکنوںکی اکثریت نے اسے پسند نہیں کیا شاید ضمنی انتخابات میں ان کی شکست اسی کاردِ عمل تھا۔۔۔ایک بڑا لیڈرہونے کے باوجود باغی کی شخصیت میں واضح تضادنظر آتاہے وہ مسلم لیگ ن میں تھے تو انتہائی مضطرب۔۔۔روٹھنا منانا لگارہا۔
پھر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے لیکن ایک دن انہوںنے یہ کہہ کر سب کو حیران پریشان کرڈالا کہ میرا لیڈر میاں نوازشریف ہے جس نے بھی سنا ششدر رہ گیا شاید یہ ان کے اندرکا پچھتاوا تھا جو مسلم لیگ ن چھوڑنے کے باعث آہستہ آہستہ ان کے دل و دماغ پر گھر کرگیا۔۔۔پھر انہوںنے کہا مجھے سب سے زیادہ عزت عمران خان نے دی۔۔۔پھر اسی پر الزامات کی بوچھاڑ کرڈالی۔۔پاکستان میں جمہوریت کیلئے سب سے بڑی قربانی مخدوم جاوید ہاشمی نے دی جس کا اعتراف سب کرتے ہیں ۔۔کوئی نہ بھی کرے تب بھی یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ڈکٹیٹرکے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر استقامت سے ڈٹ جانے والی شخصیت مخدوم جا وید ہاشمی کو کون نہیں جانتا۔ پرویز مشرف کی چھتری تلے قائم ہونے والی ق لیگ کے دو ر ِ حکومت میں مخدوم جا وید ہاشمی کو غداری کے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا اور ”بغاوت ” کے الزام میں 5 سال قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیںلیکن انہوںنے آمریت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جیل کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی کی لکھی کتاب ”میں باغی ہوں” نے بہت شہرت حاصل کی۔
مفاہمتی سیاست کے دوران مسلم لیگ ن نے جب زرداری گورنمنٹ میں وزارتیں لینے کا فیصلہ کیا تو مخدوم جا وید ہاشمی واحد سیاستدان تھے جنہوںنے کسی بھی اندازمیں جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کردیا اور اصولوںکی خاطروفاقی وزیر بننا قبول نہ کیاآج کی حکمران جماعت کے کئی رہنمائوںنے بازوئوںپر سیاہ پٹی باندھ کرپرویزمشرف سے حلف لے لیا جو آج روز مشرف کے خلاف بیان داغ رہے ہیں ۔۔۔خیربات ہورہی تھی مخدوم جا وید ہاشمی کی جنہوںنے بھرپور سیاسی جدوجہدکی لیکن ان کے انجام پر کئی لوگ ازردہ،افسردہ ہیں۔۔ عام لوگوںکا خیال ہے ان سے کئی سیاسی غلطیاں بھی سرزدہوئیںپہلی بات تو انہیں مسلم لیگ ن کوہی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔۔تحریک ِ انصاف میں شامل ہوئے تھے تو قیادت سے اختلافات کے باوجود انہیں ڈٹ جانا چاہیے تھا۔
PTI
پارٹی میںرہ کر اصلاح ِ احوال کی کوشش کرتے رہنا ضروری تھا۔۔۔باغی کوڈی چوک سے آگے پا رلیمنٹ کے سامنے جانے پر اعتراض تھا جب دھرنا وہاں سے واپس آگیا تو اصولی طورپر ان کا اعتراض دور ہوگیا۔۔ شوکاز نوٹس ملنے پر بھی انہیں پارٹی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی اپنی ناراضی کااظہارکرکے موجودہ معاملات سے لاتعلق ہو جاتے تو ان کا سیاسی وزن قائم رہتا اوران کی ذات کا ایک بھرم بنارہتا لگتاہے مخدوم جاویدہاشمی نے اپنی زندگی کے تمام اہم فیصلے کرنے میں جلدبازی سے کام لیا عقل کے فیصلے جذبات سے کرنے کا یہی نتیجہ نکلتاہے انہوںنے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک تاریخی خطاب کیا جس کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی انہوںنے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ تو دے دیا تھا اپنی زندگی کے عروج کے دوران بھریا میلہ چھوڑکر دوبارہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے تو تاریخ میں امر ہو سکتے تھے علالت، مخالفت نامناسب انتخابی مہم اور ناموافق حالات کے پیش ِ نظرمخدوم جا وید ہاشمی کا دوبارہ عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی بن کر سامنے آیا جس کے اثرات یقینا مستفبل پر بھی اثرانداز ہوں گے۔
ضمنی الیکشن کے دوران تحریک ِ انصاف کے جلسہ کے جواب میں انہوںنے یا مسلم لیگ ن نے کوئی جلسہ نہ کیا حریفوںکیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا۔۔۔بعض لوگوں کا خیال ہے مخدوم جا وید ہاشمی ٹریپ ہوگئے دھرنے ناکام بنانے کیلئے ان کو استعمال کیا گیا اور اس کوشش میں حکومت تو بچ گئی لیکن” عزت ِ سادات ”نہ بچ سکی یہ تو خدا ہی بہتر جانتاہے کہ اندرکی کیا کہانی ہے؟ منظر ۔۔۔پیش منظر۔۔محرکات اور سیاق و سباق کیا تھے؟ کبھی نہ کبھی یہ حقیقت منظر ِ عام پر ضرور آئے گی تو یقینا تہلکہ مچ جائے گا۔۔بہرحال حالات جو بھی ہوں۔۔سیاستدانوںکی رائے جو بھی سامنے آئے دل کو یقین ہے ایک نہ ایک دن یقینا جمہوریت کی سربلندی کیلئے مخدوم جاوید ہاشمی کی قربانیوںکو سنہری حروف سے لکھا جائے گا سچی بات یہ ہے کہ وقت گذرجاتاہے لیکن کردار زندہ ہمیشہ رہتاہے یہ کردار ہی ہے۔
جو مستقبل میں لوگوںکی رہنمائی کرتاہے اسی سے مؤرخ فیصلہ کرتے ہیں کس نے کیا فائدہ لیا۔ قربانیاں دینے والے کون ہیں؟ ۔۔۔ اپنی گراںقدر خدمات سے نئی تاریخ لکھنے اور تاریخ پر احسان رقم کرنے والوںکی چرچا کرنا ہم سب پر فرض ہے آمریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریزہونے سے انکار جرأت کا بہت بڑا اظہارہے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم ان تمام رہنمائوںکی قربانیاں یادرکھیں جنہوںنے اپنی زندگی اس قوم کے نام کردی یہ لوگ فرشتے نہیں ہیں ان سے بھی غلطیاں، کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی ان کو درگذرکردینا چاہیے۔
Democracy
مجموعی طورپر ان تمام سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں ، ججز یا دیگر شخصیات جنہوںنے ماضی میں آمریت کے خلاف مزاحمت کی،قربانیاں دیں قیدو بند کی مشکلات سے دو چارہوئے ان سب کو ہر قسم کے تعصبات اور امتیازسے بالاترہوکر ان کی خدمات کو قومی سطح پر تسلیم کیا جائے اوران کو مراعات،اعزازات اور تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازا جائے حکومتی سطح پر ایسا کرنے سے لوگوںکو جمہوریت سے دلی لگائو محسوس ہوگا اس اقدام سے جمہوریت مزید مضبوط ہوگی ۔۔ جس کسی نے بھی ڈکٹیٹروںکے سامنے ڈٹ کر جمہوریت کی بات کی، قربانیاں دی ہیں انہیں قومی ہیروقراردیا جائے۔۔ایک اوربات آمریت کا مقابلہ کرنے والوںکی خدمات کو عام آدمی تک اجاگرکیا جائے اس کیلئے ایک قومی ادارے کے قیام ناگزیرہے ۔۔آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والوں کی تصاویر پاکستان کی پانچوں صوبائی اسمبلیوں،پارلیمنٹ اور سینٹ بھی آویزاں کی جائیں۔
جذبات سے قطع نظر ایک دن سب کو احساس ہو گا باغی کی ہار سے جمہوریت کا کتنا بڑا نقصان ہوا نوابزادہ نصراللہ خان کو کئی الیکشن ہارنے کے باوجود بابائے جمہوریت کہا جاتاہے کچھ لوگ مخدوم جاویدہاشمی کو بھی بابائے جمہوریت قرار دے رہے ہیں اس ملک میں باغی ایک ہے۔۔۔جاوید ہاشمی ایک ہے اور تاریخ بتاتی ہے باغیوںکے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتاہے جیسے ملتان والوںنے کیا اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ کچھ لوگوںکا تبصرہ تھا باغی نہیں ہارا۔۔۔ جمہوریت ہار گئی۔ سیاست ہار گئی۔۔آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والے کو لوگوںکی بے حسی نے ہرادیا۔۔۔قوم نے اس کی قربانیوںکی قدرنہیں کی۔
بہرحال” باغی ” ایک بار پھر سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں آرہاہے ان جیسے رہنمائوں کو مسلسل برسرِپیکار رہنا چاہیے ایک تو جھپٹا ،پلٹنا۔ جھپٹ کر پلٹنا لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے ویسے بھی سیاست میں اب مخدوم جا وید ہاشمی جیسے لوگ خال خال ہی رہ گئے ہیں صدیوں پہلے عظیم فلاسفر افلاطون نے اچھے لوگوںکا سیاست سے کنارہ کش ہونے کا مطلب ہے کمتر لوگ ان پر حکومت کریں غورکریں ۔۔سوچیں اور سوچ کرجواب دیں کیا افلاطون کا کہا سچ ثابت نہیں ہورہا؟۔