تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ،ان کی بیٹی مریم نواز اورداماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدرپر اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں فرد جرم عائر کر دی فرد جرم 19اکتوبر بروز جمعرات کو عائد کی گئی جبکہ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے فرد جرم عائد ہونے پر ملزمان مجرم بن گئے فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے لندن میں غیر قانونی اثاثے بنائے ، سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کروائی گئیں ۔ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی ملزمان لندن میں فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے یاد رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد پر فردِ جرم عائد کی جانی تھی تاہم احاطہ عدالت میں دھکم پیل اور وکلا کی جانب سے احتجاج کے باعث ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی تھی۔
ایوان فیلڈ اور عزیزیہ اسٹیل کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردجرم عائد کردی گئی بیس اکتوبر کو فرد جرم عائد ہونے کے بعدسابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پہ فرد جرم کی ہیٹ ٹرک مکمل ہو گئی یہ بھی ان کا ایک منفرد ریکارڈ ہے جبکہ حسن اور حسین نواز کو اس ریفرنس میں بھی مفرور ملزم قرار دے دیا گیاآف شور کمپنیوں سے متعلق ریفرنس پر سماعت بھی سابق وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ہوئی سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فرد جرم کے نکات پڑھ کر سنائے۔فلیگ شپ ریفرنس میں عائد فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے جن کی قانونی حیثیت ثابت کرنے میں وہ ناکام رہے۔ ملزمان نے 15 کمپنیاں قائم کیں جن میں حارث اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگ لمیٹڈ، کوئنٹ ایڈن اور کوئنٹ سلون لمیٹڈ شامل ہیں۔
نواز شریف نے حسن حسین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنائیں جبکہ بچوں کے نام پر موجود جائیداد اصل میں والد کی ہے۔نواز شریف متعدد مواقع ملنے کے باوجود اثاثوں کے ذرائع ثابت نہ کرسکے اور کرپشن کے مرتکب پائے گئے، نیب قوانین کے مطابق ان کا فعل قابل سزا جرم ہے اور کرپشن الزامات پر وہ سزا کے مستحق ہیں، حسن نواز کی لندن میں دس کمپنیاں اور متعدد مہنگی جائیدادیں ہیں حالانکہ نوے کی دہائی میں ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا لیکن تعلیم مکمل کرتے ہی انہوں نے متعدد کمپنیاں بنا ڈالیں۔فرد جرم میں کہا گیا کہ نواز شریف وزیر اعلی اور وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز رہے جب کہ 2007 سے لے 2014 تک کیپیٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین بھی رہے، نواز شریف نے جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں اعتراف کیا کہ وہ کمپنیوں میں شیئر ہولڈر ہیںپاناما پیپرز کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نااہل ہونے کے باعث حکومتی ایوانوں سے رسوا ہو کر نکلے بڑے میاں اور ان کی صاحبزادی سمیت مسلم لیگ ن کے وفاقی وزرائ،صوبائی وزراء ،اہم عہدیداران نے ایک نہایت منظم پالیسی کے تحت اداروں کے ساتھ محاذآرائی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے نہال ہاشمی ہوں یا آصف کرمانی،دانیال عزیز ہوں یا پھر طلال چوہدری ،سعد رفیق ،خواجہ آصف،احسن اقبال ان سب نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ایک تسلسل کے ساتھ اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی پہ گامزن ہیں قارئین کویاد ہوگا جب میاں صاحب جی ٹی روڈ پہ ”مجھے کیوں نکالا” کا رونا رو رہے تھے تب میاں نواز شریف نے بھی اداروں سے محاذ آرائی کا تاثر دیا جب 19اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تو مریم نوز نے بھی احتساب عدالت کے سامنے احتساب عدالت کو آنکھیں دکھائیں اور خوب برسیں ان کا کہنا ہے کہ” ملکی تاریخ میں پہلی بارایسا ہو رہا کہ سسلیئن مافیا عدالتوں میں پیش ہورہاہے جب کہ جوعدالتیں ہمارا احتساب کررہی ہیں ان کا بھی احتساب ہوگا۔ یہ کیسا انصاف ہے جس میں سزا پہلے سنائی گئی اور ٹرائل بعد میں ہورہا ہے، تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ سسلیئن مافیا عدالتوں میں پیش ہورہاہے ہماری فیملی میں کوئی اختلاف نہیں،صرف اختلاف رائے ہوسکتا ہے تاہم ہماری فیملی کے حقوق کو تماشانہ بنائیں، اختلاف رائے کامطلب یہ نہیں فیملی میں اختلاف ہے جب کہ پارٹی توڑنے والے خود ٹوٹ چکے ہیں”۔
جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن میں ایک مضبوط سینئر دھڑا ایسا بھی ہے جس کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ اداروں سے ٹکرائو کی صورت میں پارٹی اور ملک دونوں کا نقصان ہے بجائے محاذ آرائی اور ٹکرائو کے مفاہمتی پالیسی سے پارٹی اور حکومت چلائی جائے مفاہمتی دھڑے میں میاں شہباز شریف،چوہدری نثار علی خاں،راجہ ظفرالحق سمیت کئی پارٹی کے سینئر عہدیداران و کارکنان شامل ہیں قارئین کو یا دہوگا سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان تو ڈھکے چھپے انداز کی بجائے کھلم کھلا میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں پہ تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں سے نہ ٹکرانے کا مشورہ دیتے رہے لیکن بڑے میاں کے اردگرد خوشامدی ٹولے نے بڑے میاں کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے ستم کی بات تو یہ ہے یہ خوشامدی اب بھی محاذ آرائی اور ٹکرائوں کی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں۔
کچھ عرصہ سے مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک کی بازگشت سنائی دے رہی تھی لیکن پارٹی کے میڈیا سیل سے اس کی سختی سے تردید کی جاتی رہی ہے اور اسے محض افواہ اور مخالفین کے منفی پروپیگنڈہ کا حصہ کہا گیا لیکن کمال حیرت اور وقت کی ٹائمنگ تو دیکھیں جب میاں نواز شریف ان کی صاحبزادی اور ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر پہ انیس اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی اس سے تھوڑی ہی دیر بعد وفاقی وزیر کھیل و بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرذادہ اچانک میڈیا پہ نہایت جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے اور ایک دھواں دار پریس کانفرس کرکے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور سیاسی تلاطم پیدا ہوگیا پارٹی کے میڈیا سیل سے جاری ہونے والی تردیدیں دم توڑ گئیں پیر ذادہ نے اعلان بغاوت کرتے ہوئے چھوٹے میاں شہباز شریف کو پارٹی قیادت سنبھالنے کا مشورہ دے ڈالا اور ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ قومی اسمبلی میں بننے والے فاروڈ بلاک میں سو کے لگ بھگ ارکان قومی اسمبلی ہیںسیاسی پنڈت پیر ذادے کی بغاوت کو بارش کا پہلا قطرہ کہتے ہیں ان کی پریس کانفرس کی دھاڑ ابھی سنائی دے رہی تھی کہ پنجاب اسمبلی کے حکومتی باغی ارکان بھی کھل کر سامنے آئے اور شنید ہے کہ اس فارورڈ بلاک میں بھی سو کے لگ بھگ ارکان شامل ہیں پارٹی میں حالیہ بغاوت ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی بڑے میاں نے پارٹی میں بغاوت ،بدلتے سیاسی حالات کا دراک اور اداروں سے محاذآرائی کی پالیسی ترک نہ کی تو ”بغاوت اور ٹکرائو ”مسلم لیگ ن کو تباہی کے دھانے پہ لا کھڑا کریگا۔