تحریر : ڈاکٹر عفت بھٹی عجیب سرد خانے کی سی ٹھنڈک ۔سیلن ذدہ بوسیدہ ہڈیوں کی ناگوار بو اس کے نتھنوں سے ہوتی دماغ میں اتر گئی .ایک کرخت با رعب آواز کی گونج ابھری ۔اپنی پہچان بتاؤ؟ سوال تھا کہ لٹھ ماری گئی تھی ۔اس نے بوکھلا کر اپنا خون آلود چہرہ نوچ کے اتار دیا اب اس کا روپ بہت گھناؤنا اور مکروہ تھا ہوسناکی سے بھرپور آنکھیں جن میں دولت جنس اور بو الہوسی پنہاں تھی۔
آواز لمحہ بھر کو اس دیکھ کے تھرا گئی۔اپنی پہچان بتاؤ ؟دانت پیس کر کہا گیا ۔مم میری پہچان ۔وہ بڑبڑایا اس نے پھر سے اپنے چہرے کو کھروچا اور اتار پھینکا اب اس کا ادھ کٹا ہونٹ اکلوتی آنکھ جب کے دوسری آنکھ کا گڑھا جہاں سے قل قل کرتا خون بہہ رہا تھا۔آدھی اڑی کھوپڑی سے سمیات مغز باہر آرہا تھا۔تم نے سنا نہیں اپنی پہچان بتاؤ۔ مم میری پہچان کھو گئی ہے۔١س ہار کر ناخنوں سے کھر چا ۔جسم سے پیپ بہہ رہی تھی۔ذوردار آواز کے ساتھ اس کا جسم پاتال میں پھینک دیا گیا۔ اس کی روح ایک کونے میں زانوؤں میں سر دیے سسک رہی تھی۔
Identity
یہ تمثیل کسی ہارر ڈرامے کی نہیں ہے زندگی کی ہے ہماری ہے جو ہم صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگ ہیں جو اپنی پہچان کھو چکے ہیں ۔اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کیونکہ یہ سچ ہے ایسا کڑوا سچ جس نہ نظر چرائے رفدن نہ ملائے رفدن ۔زندگی کے ہر لمحے پہ ہم اپنی پہچان بدلتے ہیں اور پھر ایسا ہوتا کہ ہم اپنا اصل چہرہ بھول جاتے ہیں۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتا اس کی زندگی کا آغاز ہو جاتا۔ اور ساتھ ہماری پہچان کا بھی اور تب ہماری پہچان وہی ہوتی ہے جو درحقیقت اس وقت ہوتی کیونکہ ہر انسان فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے معاشرہ اس کو بناتا یا بگاڑتا ۔حالات اس کا تشخص بدل دیتے پہلے پہل وہ سمجھوتا کرتا پھر برداشت اور جب برداشت نہ ہو تو قانون کو ہاتھ میں لیتا اور سر تا پا انتقام میں بدل جاتا اور تب وہ طاقت کا استعمال کرتااور اپنی پہچان کھو دیتا۔