پنجاب حکومت کے ملازمین بلخصوص محکمہ اطلاعات کے افسران کو اب اپنا آپ بچانا مشکل ہوچکا ہے کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جس جنگ کا آغاز کردیا ہے اب اس سے نمٹنا اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف کو مطمئن رکھنا بھی ان افسران کی ڈیوٹی میں شامل ہوچکا ہے جس دن ڈاکٹر طاہر القادری کی پریس کانفرنس ہوتی ہے اسی دن محکمہ اطلاعات کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ جاتی ہے۔
پھر انکی کوشش ہوتی ہے کہ مولانا صاحب کی خبر تھوڑی سی جگہ پر چھوٹی سی لگ جائے مگر اخبارات والوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی ہر پریس کانفرنس کو نمایاں کوریج دی جسکا حل محکمہ اطلاعات نے اب یہ نکالا ہے کہ جیسے ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کی پریس کانفرنس ختم ہوتی ہے تو ڈی جی پی آر کی طرف سے مختلف اخبارات کو ٹیلی فون جانا شروع ہوجاتے ہیں کہ ہم آپ کو لاکھوں روپے کا اشتہار دے رہے ہیں اس لیے آپ ڈاکٹر طاہر القادری کی خبر اندر کے صفحات پر چھوٹی سی لگادیں۔
وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف کو پہلے صفحہ پر نمایاں کرکے بڑی سی خبر لگائیں میں پہلے بھی متعدد بار محکمہ اطلاعات پنجاب کی من مانیوں کے حوالہ سے لکھ چکا ہوں کہ کس طرح یہ محکمہ بربادی کا شکار ہوا ہے اگر اس محکمہ میں میرٹ پراور اپنے اپنے شعبہ میں ماہر افسران کو تعینات کیا جاتا توسانحہ ماڈل ٹائون کے بعد وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف خفا ہو کر ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب کو یہ کہنے پر مجبور نہ ہوتے۔
چھ سالوں میں صرف ایک ہی بار تمہاری ضرورت پڑی تھی اور تم نے اس موقعہ پر اپنی نالائقی کی انتہا کردی اب اسی نالائقیوں کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کی چھوٹی سی خبر رکوانے کے لیے لاکھوں روپے کے اشتہارات اخبارات کو جاری کردیے چلوں اچھا ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خوف سے یا خادم اعلی کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے اخبارات کو اچھے خاصے اشتہارات ملنا شروع ہوگئے ہیں۔
ان میں ایسے اخبارات بھی ہیں جن کو ایک لمبے عرصہ سے کوئی اشتہار ہی نہیں ملا تھا ان سب کاروائیوں کی نگرانی ڈی جی پی آر براہ راست خود ہی کررہا ہے یہاں تک کہ انکے ڈائریکٹر نیوز پرنٹ میڈیا جو صرف دفتر میں خانہ پوری اور آرام فرمانے کے لیے آتے ہیں اور ڈائریکٹر نیوز الیکٹرونک میڈیا جوخود مختار افسر کی بجائے کٹھ پتلی نما ہیں سمیت کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے اور ان دونوں افسران کی ذمہ داریاں بھی ڈی جی پی آر خود ہی نبھا نے میں مصروف ہے۔
Corruption
اسی محکمہ کے شعبہ اشتہارات میں ایک ایسے فرد کو لگایا گیا ہے جس پرمحکمہ انٹی کرپشن میں کیسز چل رہے ہیں اور ضمانت پر اپنے دن گذار رہا ہے اسی محکمہ کا سیکریٹری اپنے محکمہ کے افسران کی فائلیں دبائے بیٹھا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے میرٹ میرٹ کی رٹ لگانے والوں نے ہی پنجاب میں میرٹ کی دھجیاں آڑا کررکھی ہوئی ہیں پنجاب حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی اربوں روپے کی اشتہاری کمپین میں اسی محکمہ کے ایک ڈائریکٹرکوآرڈینیشن مجید شاہد نے مبینہ طور پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کمائے اور صبر شکر کرنے کے بعد دبئی میں اپنا کاروبار سیٹ کرلیا ہے۔
اندورنی زرائع کے مطابق محکمہ اطلاعات کے اشتہاری شعبہ میں کروڑوں روپے کی کرپشن تو بہت ہی معمولی ہے کیونکہ اگر حکومت کی طرف سے پورے سال میں 3ارب کی کوئی بھی میڈیا کمپین چلائی جاتی ہے تو اس میں سے بعض اخبارات ایسے بھی ہیں جو 50 فیصد اشتہار دینے والے کو ادا کردیتے ہیں جبکہ ہر اشتہار پر 15 فیصد کمیشن کسی بھی من پسند ایجنسی کے زریعے لازمی مل جاتا ہے ہمارے بعض اخباری بھائی اس بات پر بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ انہیں 50 فیصد کمیشن پر اشتہارات مل جاتے ہیں جہاں کمیشن مافیا سرگرم ہو ،میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیاں کی گئی ہوں۔
اختیارات فرد واحد کے پاس ہوں تو پھر حکمرانوں کی آنکھوں میں انہی کے افسران ایسے ہی دھول جھونکتے ہیں مجھے یاد ہے کہ اسی محکمہ کے افسران سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی کوئی بھی خبر کسی اخبار میں دیکھ کر غصے میں آپے سے باہر ہوجایا کرتے تھے اور ان اخباروں کو اشتہارات زیادہ دیتے تھے۔
جن میں مشرف کی لیڈیں چھپتی تھی اور آج وہی افسران اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے ساتھ وفاداری نبھانے میں مصروف ہیں اگراسی محکمہ میں میرٹ پر ایماندار افسران کوتعینات کیا گیا ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ اشتہار کا لالچ دیکر خبروں کو رکوایا جائے یا چھوٹی لگانے کی التجا کی جائے اگر موجودہ حکومت کے پچھلے پانچ سال اور حالیہ ایک سال محنتی افسران کو محکمہ اطلاعات میں اہم ذمہ داریاں دی جاتی جو حکومت کے اچھے کاموں کواخبارات میں نمایاں چھپواتی اور ٹیلی ویژن میں بھی میاں شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کو نمایاں کرکے ناظرین تک پہنچاتی تو آج حالات اس نہیج پر نہ پہنچ پاتے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی خبر کو اندرونی صفحات پر چھپوانے کے لیے خزانے کا منہ کھولنا پڑتا اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جتنا کام میاں شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں کروایا اتنا آج تک کسی حکمران نے نہیں کیا مگر اسکے باوجود اب ایک طرف آزادی مارچ تو دوسری طرف انقلاب ہے جو حکمرانوں کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔۔