سفارش

Tailor

Tailor

ایک درزی اپنی چالاکی اور ہوشیاری میں مشہور تھا۔ کچھ لوگ ایک جگہ پر بیٹھے اس درزی کی چالاکی کے قصے ایک دوسرے کو بڑھا چڑھا کر سنا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ “وہ درزی تو بڑے کمال کا آدمی ہے۔ ہم نے اس قدر عیار اور چالاک درزی نہیں دیکھا، کوئی کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو اور درزی کے سامنے بیٹھ کر اپنا کپڑا کٹوائے پھر بھی وہ اپنی چالاکی سے کام لے کر تھوڑا بہت کپڑا چوری کر ہی لیتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔

انہی لوگوں میں ایک سپاہی بھی بیٹھا ہوا تھا جو اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتا تھا۔ وہ درزی کی چالاکی کی باتوں کو سن کر چڑتے ہوئے بولا۔ لو بھئی! میں اس بات پر شرط لگاتا ہوں کہ کل میں کوٹ کا کپڑا اْس کے پاس لے کر جاؤں گا اور اپنے سامنے کٹواؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ میرا کوٹ سی دے، میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح میرے کپڑے سے کپڑا چراتا ہے، اگر اس نے مجھے اس معاملے میں دھوکا دیا اور اپنا ہنر دکھا دیا اور واقعی میرے کپڑے میں سے تھوڑا سا کپڑا چوری کر لیا تو میں تم لوگوں کو منہ مانگا انعام دوں گا۔

سپاہی خود ہی اس طرح کی شرط لگا کر اگلے دن کوٹ کا کپڑا لے کر درزی کی دکان پر جا پہنچا اور کہنے لگا۔”دیکھو! یہ میرا کوٹ کا کپڑا ہے، اس کا کوٹ تیار کرنا ہے مگر بات یہ ہے کہ کپڑے کی کٹائی اسی وقت میرے سامنے کرو کیونکہ میں نے تمہاری چالاکی اور ہوشیاری کی بڑی کہانیاں سنی ہیں، لیکن میں بھی کچھ کم نہیں ہوں۔ تمہارے دھوکے میں آنے والا نہیں ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ تم کتنے ہوشیار اور چالاک ہو۔

درزی نے سر اٹھا کر سپاہی کی طرف دیکھا اور اندر ہی اندر مسکراتے ہوئے بولا۔”حضور! میں تو بڑا ایماندار آدمی ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں میرے بارے میں کسی نے غلط فہمی پیدا کر دی ہے۔ یہ درزی کا پیشہ اختیار کئے ہوئے تو میری ساری عمر گزر گئی ہے لیکن حرام ہے کہ جو آج تک کسی کا ایک گرہ کپڑا چوری کیا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ معاملہ فہم سپاہی ہیں، ہر بات کی تہہ کو سمجھتے ہیں یقینی بات ہے کہ عقلمندی میں آپ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے، آپ کے سامنے بھلا کس کی مجال ہے کہ جو چالاکی وعیاری دکھانے کی جرآت کرے۔

Tailor

Tailor

سپاہی درزی کی بات سن کر پھولے نہ سمایا اور دل میں بڑا خوش ہوا کہ درزی مجھ سے مات کھا گیا ہے۔ سپاہی نے اپنا کپڑا درزی کی طرف بڑھا دیا۔ درزی نے قینچی سے کپڑے کو کاٹنا شروع کیا۔ اب سپاہی چوکس ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے نظریں قینچی اور درزی کے ہاتھوں پر گاڑ دیں۔ درزی جہاں چالاکی و عیاری میں ماہر تھا، وہاں وہ لطیفہ گوئی اور مسخرہ پن میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ بے شمار لطیفے اس کو زبانی یاد تھے۔ اس نے جب سپاہی کو اس قدر چوکنا ہو کر بیٹھے دیکھا تو کپڑا کاٹتے کاٹتے اچانک ایسا زبردست لطیفہ سنایا کہ جسے سن کر سپاہی ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا۔ اسی ہنسی کے عالم میں اس کا سر کافی آگے کی طرف جھک گیا۔ درزی اسی موقع کی تلاش میں تھا، اس نے جلدی سے تھوڑا سا کپڑا کاٹ کر چھپا لیا۔ اب سپاہی کی ہنسی رکی اور وہ دوبارہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اسے لطیفہ سن کر مزا آیا اور کہنے لگا۔ “یار ماسٹر! لطیفہ تو تم نے بڑا زبردست سنایا، ایک اور سنائو۔۔۔!۔

درزی کب انتظار کرنے والا تھا، اس نے جھٹ سے ایک اور لطیفہ داغ دیا۔ یہ پہلے سے بھی زیادہ ہنسانے والا تھا، اب تو سپاہی کا ہنسی کے مارے برا حال ہو گیا اور ہنستے ہنستے اس کا سر زمین کے ساتھ جا لگا۔ درزی نے پھر اس موقع کو غنیمت جانا اور تھوڑا سا مزید کپڑا چوری کر لیا۔ سپاہی کو پھر بھی پتہ نہ چلا۔ ہنستے ہنستے جب اس کی حالت ذرا سی سنبھلی تو سر اٹھاتے ہوئے بولا۔”یار ماسٹر! ایک لطیفہ اور سنا دو۔” درزی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “سپاہی جی! لطیفہ تو ضرور ایک سنا دوں گا مگر پھر آپکا کوٹ کچھ زیادہ ہی تنگ ہو جائے گا۔

یہ واقعہ جب میںنے پڑھا تو ایک بات میرے ذہن میں آئی کہ آج کل لوگ سفارش بھی اسی طرح ہنستے ہنستے کروارہے ہیںکہ حق دار افراد کوپتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا حق کوئی دوسراچھین کے لے گیا ہے اور وہ بے چارے آخری ٹائم تک دفتروں اور محکموں کا چکر لگاتے رہتے ہیںاوروہاں پر کام کرنے والے افراداُس درزی کی طرح ان کو لطیفے سُنا سُنا کہ اپنااوراُن کا دل بہلاتے رہتے ہیں اور پھراس مہارت سے کوٹ کی طرح ان کے حق پر قینچی مارتے ہیںکہ اسے پتہ بھی نہیں چلنے دیتے۔ پاکستان کا ہر ادارہ اس وقت آخری سانسیں لے رہا ہے۔بیروزگاری عروج پر ہے۔نااہل اورسفارشی افراد کی بھرتی زور و شور سے کی جارہی ہے۔قابل اوراہل افراد لائنوں میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس سفارش نہیں ہے۔سفارشی افرادکی بھرتی سے ایسے افراد جن کوقابلیت اور ڈگری ہونے کے باوجود نوکریاں نہیں مل رہی وہ دہشتگرد بن رہے ہیں۔وہ افراد جو سیاسی رہنمائوں کی زیادہ چاپلوسی کرتے ہیںیاان کے جلسوں میں زیادہ نعرے لگاتے ہیں وہ نااہل ہونے کے باوجود بھرتی کئے جا رہے ہیں۔

سفارش ایک بہت ہی گھنائو ناعمل ہے جس کا خاتمہ بہت ضروری ہے اگر سفارش کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ادارے تباہ ہوتے رہیں گے اور ان کا کوئی پرسانِ حال باقی نہیں بچے گا۔

Jamshaid Azam

Jamshaid Azam

تحریر : جمشید اعظم