تحریر : رضوان اللہ پشاوری آج کل امت مسلمہ میں ہر جگہ پرتھوڑ پھوڑ،ناچاقی اور قطع تعلقی شروع ہے۔اتفاق واتحاد کا تو سِرے سے نام ہی نہیں، ہمارے علمائے کرام نے بھی دوسروں کو وعظ کرنے کا شیوہ اپنا رکھا ہے اور اپنے آپ کو بھول چُکے ہیں،عطاء اللہ شاہ بخاری کا کہنا ہے کہ جب ہم اپنی سات فٹ بدن میں اسلام نافذ نہیں کرسکیں گے تو تب دنیا میں اسلام نافذ کرنا چی معنیٰ دارد؟یعنی کہ پہلے ہمیں اپنے آپ کو سنبھلنا ہوگا تب جاکر ہم کسی دوسروں کو وعظ کریں گے۔ہاں یہ بھی نہیں کہ بس ہم ویسے ہی ہاتھ باند کر التی پلتی بیٹھ جائے نہیں نہیں بلکہ تھانوی کا کہنا ہے کہ جو کام اور فعل آپ میں نہیں ہے،تو دوسروں کو اس کی وعظ کریں شائد کہ اس وعظ کی برکت سے تم بھی اسی فعل اور کام کے ساتھ آشنا ہوجاؤں۔
اسی اتفاق واتحاد کے بارے میں ایک واقعہ نقل کرتا ہوں تاکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ دین میں جتنے شعبے ہیں ہر ایک کی مستقل افادیت تو اپنی جگہ مگر جب ان تمام شعبوں میں جوڑ،اتفاو اور اتحاد ہوگا تو ہم کامیاب ہوں گے۔ یہ آج سے چھ سو سال پہلے کا ذکر ہے ،عراق کے شہر بغداد میں ایک تاجرمصطفی بغدادی رہا کرتا تھا۔دنیا جہاں کی ہر نعمت اسے میسر تھی۔اللہ تعالیٰ نے اسے چار بیٹوں سے نوازا تھا۔مصطفی ایک نہایت عقلمند انسان تھا۔
Education
وہ اپنے بیٹوں کو ایسی تعلیم و تربیت دینا چاہتا تھا جو دنیا و آخرت دونوں میں ممد و معاون ثابت ہو۔بغداد پوری دنیا علم و ادب کا مرکز تھا اور پوری دنیا سے لوگ بغداد میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ۔مصطفی نے بغداد کے مشہور و معروف عقلمند لوگوں سے اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں مشورہ کیا اور پھر ایک انوکھا فیصلہ کیا۔چاروں بیٹوں کو اس نے عالم بنانے کا فیصلہ کیا اور بغداد کے سب سے بڑے مدرسے میں داخل کروا دیا۔سال گزرتے گئے اور آخر وہ دن بھی آگیا جب چاروں بیٹے مکمل عالم کے روپ میں اس کے سامنے کھڑے تھے ۔ان کے اساتذہ سے مشورے کے بعد مصطفی نے ان کے مستقبل کے کچھ نئے فیصلے کئے تھے ۔بیٹے بھی نہایت فرمانبردار تھے ۔سب سے بڑے بیٹے عبد الودود کو اسی مدرسے میں مزید دینی تخصص اور مہارت کا راستہ دکھایا۔دوسرے بیٹے عبدالحئی کو اس کے جوہر دیکھتے ہوئے تعلیم کا سلسلہ موقوف کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے خاطر خواہ خرچہ دے کر اردگرد کے ممالک میں دعوت و تبلیغ کے لئے بھجوا دیا۔تیسرے بیٹے عبدالغافر کوتربیت و تزکیہ کے لئے بغداد کے شہرۂ آفاق شیخ کے سپرد کردیا۔اور چوتھا بیٹا عبد الباقی جو بچپن سے پھرتی میں اپنی مثال آپ تھا،کوایک مشہور فنون سپاہ گری کے ماہر کے حوالہ کردیا۔
جہاں سے مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ ایک مشہور مسلمان سپہ سالار کے لشکر میں شامل ہوگیا۔پانچ سال کا عرصہ گزر گیا تو مصطفی بغدادی نے چاروں بیٹوں کو بلایا اوران کو جانچنے کے لئے کچھ سوالات کئے ۔بڑا بیٹا جو ایک نامور عالم بن چکا تھا،اپنے علم پر کچھ نازاں دکھائی دیا۔اور یہی صورتحال اس نے اپنے مبلغ،صوفی اور مجاہد بیٹے میں محسوس کی۔اسے محسوس ہوا کہ ہر کوئی اپنے شعبے کو برتر اور دوسرے کے شعبے کو کمتر تصور کررہا ہے ،گویا وہ دین کے جزو کو دین کا کُل تصور کررہے تھے ۔مصطفی بغدادی نے چاروں بیٹوں کے اساتذہ سے مشاورت کے بعد ان کی موجودگی میں بیٹوں کو سمجھانے کا فیصلہ کیا۔”میرے پیارے بیٹو!دین کے چار شعبے ہیں؛تبلیغ،جہاد،تعلیم و تعلم اور تزکیہ۔مسلمان اس وقت کامیاب ہوں گے جب ان چاروں شعبوں میں جوڑ ہوگا،مرکزیت ہوگی،اجتماعیت ہوگی ورنہ یہ شعبے ٹکڑے ٹکڑے رہیں گے اور مسلمان کامیاب نہیں ہوں گے۔”
Training
مصطفی نے ایک گہرا سانس لیااوراپنی بات جاری رکھی۔”تم لوگو ں کی اس طرز کی تربیت میں میری بہت گہری منصوبہ بندی تھی۔تمہارا اصل کام اب شروع ہوگا۔اور وہ ہے کہ مسلمانوں کو کس طرح امت میں جوڑا جائے اور ان کو اس سے بچایا جائے کہ میں مجاہد ہوں،میں تبلیغی ہوں،میں صوفی ہوں،میں عالم ہوں اور دوسرے سے میرا کوئی تعلق نہیں،بجائے اس کے وہ کہے کہ سارے ہمارے اپنے ہیں۔اگر ہم اس طرح کریں گے تو ہمیں سب جماعتوں کا ثواب ملے گا۔” “عبد الباقی کی طرح اس مجاہد کا ثواب ملے گا جو کفر کے ساتھ حقیقی معنوں میں برسرِپیکار ہے ۔” “عبد الحئی کی طرح اس مبلغ کا ثواب ملے گا جو دوردراز تبلیغ کے لئے جاتا ہے ۔” “عبدالودود کی طرح اس مدرس کا ثواب ملے گا جو تدریس کررہا ہے۔ ”
اور”عبد الغافر کی طرح اس صوفی کا ثواب ملے گاجونفس کا تزکیہ کررہا ہے۔” مصطفی بغدادی یہ کہہ کر چپ ہوگیا،اساتذہ کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ پھیل چکی تھی اور سارے بیٹے ہر شعبے کی افادیت جان چکے تھے اور اب وہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں مضبوطی سے ہاتھ دیے کھڑے تھے ۔(سبحان اللہ) اللہ تعالیٰ ہم میں بھی ایسا جوڑ پیدا کریں،اللہ تعالیٰ تمام امت مسلمہ کو اتفاق اور اتحاد سے مالامال کر دیں۔(آمین) ایں دعا از من وازجانب جہاں آمین باد
Rizwan Peshawari
تحریر : رضوان اللہ پشاوری rizwan.peshawarii@gmail.com 0313-5920580