تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے متفقہ فیصلہ سے مسلم لیگ ن کر قائد اورسابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ملکی سیاست میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے شہر اقتدار سے جاتی عمرہ تک کا سفر نااہل ہونے والے شخص کا چار دنوں تک محیط رہا موٹر وے کے جال بچھانے والے نے موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ سے قومی اسمبلی کے پندرہ حلقے منسلک ہیں میاں صاحب کی یہ ریلی کامیابی سے ہمکنار ہوئی یا ناکامی سے دوچار ہوئی یہاں یہ بحث بے سود ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے پندرہ حلقے جو جی ٹی روڈ سے منسلک ہیں ان پندرہ میں سے ایک حلقہ مسلم لیگ قائد اعظم کے پاس جبکہ باقی چودہ حلقے حکمران جماعت کے پاس ہیں سلطنت عباسیہ میں ان کا اپنا وزیر اعظم ہے پنجاب میں فرمانبردار چھوٹا بھائی صاحب اقتدار ہے ریلی میں شرکاء کی تعداد۔۔۔؟ بس رہنے دیجئے اصل بات نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم کا طرز گفتگو ہے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت پہ کھلم کھلا تنقید ہے یہ ایک تصادم کا راستہ ہے جو میاں ساحب کے ارد گرد ”ہے جمالوٹولہ ” کی مشاورت کا نتیجہ ہے جو آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کے لئے نہایت خطرناک صور ت حال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ملک اس وقت جن نازک حالات سے گزر رہا ہے ان حالات میں میاں نواز شریف کو تحمل اور سیاسی بردباری کا ثبوت دینا چاہیئے تھا مفاہمتی راستہ اختیار کرنے کی بجائے تصادم کا راستہ اختیار کرنا عقل مندی نہیں بلکہ سیاسی ناپختگی ہے جس عدلیہ پہ کڑی تنقید کی گئی۔
اسی عدلیہ میں ناہلی کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں بھی دائر کر دی گئیں اس بات پہ قطعی اعتراض نہیں کہ عدلیہ میں اپنے خلاف آنے والے فیصلے کے تناظر میں نظر ثانی کی درخواستیں کیوں دائر کی گئیں اصل بات یہ ہے کہ عدلیہ پہ کڑی تنقید موجودہ حالات میں کسی بھی طرح درست نہیں ہے نظرثانی کی درخواستیں دائر کرنا میاں نواز شریف کا آئینی حق ہے اس بات پہ اختلاف کی گنجائش نہیں ہے عدلیہ کے فیصلے کے بعد ملک کے سیاسی حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ملکی سیاست میں ایک بار پھر دو بڑی پارٹیوں میں میثاق جمہوریت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم نے بھی ایک مفاہمتی فارمولا پی پی پی پی کو دیا ہے جس میں 62,63شق کا خاتمہ سرفہرست ہے آئینی ترمیم کے نتیجہ میں پی پی پی پی کو وزیر اعظم کے عہدہ کی بھی پیش کش کر دی گئی ہے موجودہ سیاسی تناظر میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کیا سوچتے ہیں انہوں نے اپنی پریس کانفرس میں واضح کر دیا ہے”پیپلزپارٹی پار لیمنٹرین کے چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف سے رابطہ ہی نہیں رکھنا چاہتے تو ڈائیلاگ کیسا؟نواز شریف اقتدار میں ہوں تو ان کی ترجیحات اور ہوتی ہیں اور اقتدار میں آکر ترجیحات بدل جاتی ہیں’ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا حصہ نہیں بنیں گے’ نواز شریف کو اقتدار میں 62/63 ، گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور نیا عمرانی معاہدہ یاد کیوں نہیں آیا’پیپلز پارٹی کا چنیوٹ کا کامیاب جلسہ سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، بلاول میدان میں اتر چکا ہے جس سے پارٹی کی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہوگا”سابق صدر نے واضح کردیا ہے کہ اب ان کے راستے جدا ہونگے۔
کبھی پاکستان پیپلز پارٹی ملک گیر اور وفاق کی پارٹی کہلاتی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھی تو اس پارٹی میں ملک کے پسے ہوئے عوام نے بھٹو کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے جوق درجوق شمولیت اختیار کی غریب،ہاری،کسان ،ریڑھی بان اس پارٹی کے جیالے کہلائے ملک عزیز کے بڑے بڑے نامور ادیب اور دانشوروں نے پی پی پی میں شمولیت کو اپنا اولین فرض سمجھا پارٹی اقتدار میں آئی 73ء کا متفقہ آئیں بھی دیا بھٹو کے منظر سے ہٹنے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ پارٹی کی قیادت آئی دو مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بنیں اسلامی دنیا میں پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے جب مرحومہ منظر سے غائب ہوئیں تو حادثاتی طور پہ آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گئے سندھ کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی اتحادی پارٹیوں کے تعاون سے پی پی پی نے اپنا وزیر اعظم بنوایا اپنے اقتدار کے پانچ سال بھی مکمل کر لئے ۔۔۔۔ لیکن” مفاہمتی جادوگر” کی ”مفاہمتی پالیسی” نے وہ پیپلز پارٹی جس کی آواز کراچی سے لیکر خیبر ۔۔۔۔ خیبر سے لیکر کشمیر۔۔۔ کشمیر سے لیکر گلگت بلتستان تک سنائی دیتی تھی صرف سندھ تک سمٹ کر رہ گئی زرداری کی مفاہمتی پالیسیوں نے پی پی پی کو کہیں کا نہیں چھوڑا بہت سے لوگ دل برداشتہ ہو کر پارٹی کو خیر باد کہہ گئے اور جو پارٹی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے وہ مصلحتا خاموش ہوکر گمنامی میں کھو گئے پی پی پی کے پاس اب بلاول بھٹو کی شکل میں ایک لیڈر ہے پی پی پی کا ووٹر بھی اسے تسلیم کرنے کو تیار ہے لیکن بلاول کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ” مفاہمتی جادوگر” اگر بینظیر بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کو فری ہینڈ دے دیں تو یقینا پی پی پی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے وہ لوگ جو پارٹی سے روٹھ چکے ہیں انہیں منایا جائے پارٹی میں شامل کیا جائے۔
موجودہ حالات میں زرداری کی پریس کانفرس جس میں انہوں نے کہا کہ نواز سے اب بات نہیں ہوگی اگر اس بات پہ قائم رہیں تو پارٹی میں پھر سے جان پڑ سکتی ہے این اے120میں پی پی پی کو نئے سرے سے اپنی پوری توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینا چاہئے کراچی میں پی پی کی کامیابی اور چنیوٹ میں ایک بڑے جلسے سے کارکنوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ایسے حالات میں بلاول بھٹو کو فر ی ہینڈ دے کر پھر سے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے کی امید کی جا سکتی ہے میثاق جمہوریت اور مفاہمتی سیاست سے پی پی پی کوجان چھڑا کر نئے جذبہ سے اپنی نئی اننگز کا آغاز کر چاہئے