تحریر : محمد اشفاق راجا ڈاکٹر طاہر القادری کا ریکارڈ ضائع کرنے کا الزام بچگانہ، یہ کئی جگہ محفوظ ہوتا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک نیا اور سنگین نوعیت کا ایشو چھیڑ دیا اور اپنے اس الزام کو دہراتے ہوئے کہ شریف خاندان کی ملوں میں تین سو بھارتی ملازم ہیں پچاس افراد کی ایک فہرست بھی جاری کی ہے جس کے ساتھ پاسپورٹ نمبر بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس سے انکار کیا جائے تو وہ مزید نام ظاہر کر دیں گے، یہ اپنی نوعیت کا سنگین الزام ہے جس کے مطابق انہوں نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر اور مقامی بین الاقوامی سرحد پر امیگریشن اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی جھٹلا دیا ہے، ان کا الزام ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن دہلی کو خصوصی ہدایت کے ساتھ لفافے میں نام بھیجے جاتے اور وہاں سے ویزے جاری ہو جاتے جن پر پولیس رپورٹ سے مستثنیٰ کی مہر بھی ہوتی۔ اس سے بھی سنگین بات یہ ہے کہ ان کے مطابق تین سو بھارتی شوگر ملوں میں ملازم ہیں، جو مختلف تکنیکی کاموں کی بنیاد پرویزے حاصل کر کے آئے ہیں، اس سے ان کی مراد یہ بھی ہے کہ ان حضرات کے پیشوں کے بارے میں بھی غلط اطلاعات دی گئی ہیں۔
حسب توقع اب اس پر بحث چھڑ گئی ہے کہ حکومت کو جواب دینا چاہیے یا نہیں۔ بعض حضرات اس سارے الزام کو لغو اور بے بنیاد قرار دے کر جواب نہ دینے کی بات کرتے ہیں لیکن پاکستانیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ ڈاکٹر موصوف کو جواب ملنا چاہیے، اب شریف گروپ آف انڈسٹریز کے ترجمان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے الزامات کو غلط قرار دیا اور کہا ہے کہ ان کی کسی مل میں کوئی غیر ملکی ملازم نہیں ، اور وہ طاہر القادری کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کریں گے۔
بعض دانشور اور باخبر حضرات نے بھارتیوں کی آمد کا طریق کار بتایا کہ بعض مشینری بھارت میں سستی اور بہتر تیار ہوتی ہے قواعد کے مطابق وہ خرید لی جائے تو کمپنی کی طرف سے ماہرین اسے نصب کرا کے چلانے اور یہاں کے عملے کو تر بیت کے لئے آتے اور پھر مقررہ مدت میں واپس چلے جاتے اور ان کا باقاعدہ انداراج ہوتا ہے۔
Sharif Family
جہاں تک ہمارا علم ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان وفود کا بھی تبادلہ ہوتا ہے، پاکستان میں میزبان اپنی وزارت داخلہ اور خارجہ کو بھارت سے آنے والے مہمانوں کی تفصیل معہ پاسپورٹ کے کوائف مہیا کر کے اجازت طلب کرتے ہیں اور ایسا ہی بھارت والے بھی کرتے ہیں دونوں طرف سے حکومتوں کی منظوری کے بعد دہلی اور اسلام آباد کے ہائی کمیشن دفاتر کو فہرست بھیج دی جاتی ہے اور اسی فہرست کے مطابق متعلقہ شہریوں کو متعلقہ ہائی کمشنر ویزے جاری کرتے ہیں، جہاں تک پولیس رپورٹ سے استثنیٰ کا تعلق ہے تو ایسے وفود کے ساتھ یہ رعائت کی جاتی ہے اور ایسا دونوں ہائی کمشنر کرتے ہیں۔
البتہ انفرادی طور پر جانے والے یا ایک دوسرے کے ملک میں رشتے داروں سے ملنے والوں کا تعلق ہے تو ان کے لئے پولیس رپورٹ لازم ہوتی ہے، جہاں تک استثنیٰ والوں کا سوال ہے تو ان کو جہاں ٹھہرایا جاتا ہے(ہوٹل ہو یا ہوسٹل) وہاں کی انتظامیہ مہمانوں کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں لے کر متعلقہ شعبہ(پولیس) کو مہیا کردیتی ہے کہ یہ مہمان آئے اور یہاں ٹھہرے ہیں، اس لئے استثنیٰ تو گروپوں کو مل جاتا ہے۔
اب ڈاکٹر طاہر القادری نے جس ڈرامائی انداز میں یہ سب پیش کیا اس کی نوعیت کو بہت سنگین بنادیا ہے ان کا واضح الزام ہے کہ تین سو بھارتی باقاعدہ ملازم ہیں اور ریکارڈ بھی مسخ کردیا جائے گا حالانکہ یہ ریکارڈ صرف ہائی کمیشن میں نہیں ہوتا، وزارت داخلہ اور خارجہ کے علاوہ بین الاقوامی سرحد پر امیگریشن کے علاوہ سرحد کے محافظوں کے پاس بھی درج ہوتا ہے کہ کون کب آیا اور کب واپس گیا اس لئے ریکارڈ کی تلفی کا الزام نہ صرف بچگانہ بلکہ سمجھ سے بالاتر بھی ہے۔
Model Town Tragedy
بہتر عمل یہی ہے کہ حکومت خود بھی جواب دے اور اس مسئلہ کو کسی ایسے تحقیقاتی فورم کے سپرد کرے جو الزام ثابت ہونے پر مقدمات درج کرائے اور غلط ثابت ہونے پر محترم ڈاکٹر کو کٹہرے میں لے کر آئے ابھی تک ڈاکٹر طاہر القادری کے مقاصد ہی واضح نہیں ہو پارہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے وہ عدالت سے ماورا قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں جو یہاں قانونی طور پر رائج نہیں اور قانون کے مطابق فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے وہ ڈاکٹر قادری کی خواہش کے مطابق عمل نہیں کرسکتیں، اب یہ سنگین الزام سامنے لے آئے اور اپنے انداز میں بیان بھی کیا۔اس کا فیصلہ بہت ضروری ہے، ہمارے نزدیک تو اعلیٰ سطحی کمیشن( مقررہ مدت) میں تحقیق کر کے فیصلہ سنائے یہی حل ہے۔