گذشتہ روز مسئلہِ کشمیر کے سلسلے میں پوری پاکستانی قوم بمعہِ کشمیریوں، نے یومِ کشمیر، کشمیر کی آزادی کے جذبے سے سرشار ہو کر منایا۔ ہر پاکستانی کی یہ دلی آرزو ہے کہ ہمارا کشمیر نام نہاد دنیا کی سب سے بڑی جموریت کے نرغے سے آزاد ہو اور کشمیر کے لوگ بھی آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو کر اپنی زندگیاں جمہوری اقدار کے تحت ھذار سکیں۔ یہ کیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جو جموں و کشمیر کے چھوٹے سے جغرافیے میں جمہوری اقدار کو اپنے سات لاکھ فوجی وردی میں ملبوس بھیڑیوں سے کنٹرول کرا رہی ہے اور کشمیریوں کو اُن کا جمہوری حق، حق خود ارادیت دینے سے گریزاں ہے۔ ہندوستان کے اس جمہوری مخالف رویئے کی اکثر ہندوستانی دانشور بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔
ایسے دانشوروں کو متعصب ہندو تنظیمو اور متعصب سیاست دانوں کی ہجو کا شکار رہنا پڑ رہا ہے اورسب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کی چیمپیئن مغربی طاقتیں اور ان کی باندی اقوام متحدہ نے تیمور جیسے علاقے کو توجہاں کشمیر کی طرح لوگوں پر ظلم و زیادتیاں بھی نہ تھیںدیکھتے ہی دیکھتے اپنی استعماری قوت کے بل پر اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے آزادی دلا دیتی ہیں۔یہ قوتیں اسلامی دنیا کی شکست و ریخت میں تو دل و جان سے حصہ دار رہتی مگر مسلمانوں پر استعماری غلبے کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی ہیں ویسے دنیا میں ان سے بڑا کوئی جمہوریت کا چیمپئن کیا کوئی؟؟؟پاکستان کے لوگ یوم کشمیر 5،فروری کو 1931ء کے ڈوگرا استعمار کی کشمیریوں کے خلاف جابرانہ کاروائیوں کے خلاف کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر منا کر ہر سال کشمیریوں کی قربانیوں کی یاد کے ساتھ ہندوستان کی درندگی کے خلاف بھی کشمیریوں کی آزادی کی جنگ میں ہر پاکستانی کی مثبت شرکت کا اظہا ہر ہے۔جب تک کی آزادی اورکشمیریوں کے لہو رنگ آنسووں کے ایک ایک قطرے کا ہندو استعمار سے حساب نہ لے لیں پاکستانی ہر گز سکون کی نیند نہ سو پائیں گے۔جس کے لئے ہر کشمیری اور پاکستانی کہتا ہے ” باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم سوبر کر چکا ہے تو امتحا ں ہمار ا ”
گذشتہ بیس سالوں کے دوران نہتے ایک لاکھ کشمیریوں کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سات لاکھ غاصب فوجی غنڈوں نے گولہ بارودکے ڈھیر میں ملیا میٹ کر دیااور پھر بھی سامراجیوں کے لئے وہ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ٹہری !!!ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری ہندوستان کے عقوبت خانوں میں موت و زیست کے کھیل کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں۔پندرہ سے بیس ہزار کشمیری مجاہدین کو قتل کر کرکے نا معلوم مقامات پرقبروں میں دبا دیا گیاہے۔ایسی اجتماعی قبریں مقبوضہ کشمیر کے اکثر مقات پر تلاش کی جا سکتی ہیںجو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہیں۔ان اجتماعی قبروں کا مقبوضہ کشمیر کے اکثر مقامات پرہونا،ہندو بر بریتاور کشمیریوں کے ہولو کاسٹ کا منہ بولتا ثبت ہیں۔ ہزروں بچے ان درندوں کی درندگی کی وجہ سے آج یتیمی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔بیسیوں ہزرار خواتیں بیوگی اور نیم بیوگی کی زندگی گذار رہی ہیں۔نیم بیوہ وہ خواتین ہیں جن کے سر کے تاجپتہ ہی نہیں شہید ہو گئے ہیں یا ہندوستان کے عقوبت خانون میں کہیں گُم نام پڑے ہیں۔
”ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو دب جاتا ہے لہو پھر لہو ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا”
لہو جم کر اپنا نشان برقرار رکھتا ہے۔ اس کھیل میں ہندوستان کی اولین قیادت نے نا عاقبت اندیشانہ کردار ادا کر کے دنیا پر اپنی بیوقوفی اس طرح ثابت کی کہ جمہوری اصولوں کو پامال کرتے ہوے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمانے کو اپنا (نا)جائزحق ثابت کرنے کی جھوٹی کوششوںمیں دن رات مصروف رہی اور پھر بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائی۔
United Nations
یہ بات اقوام متحدہ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کا کہا تو ہندوستانی قیادت نے اقوام متحدہ سے جھوٹا وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دینے کے پابند ہیں۔ مگر یہ شاتر اور وعدہ خلاف جھوٹے لوگ آج تک اپنے آپ کو کسی بھی وعدے کے وفا کرنے میں سنجیدہ نہیں رہے۔ یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ کشمیر قانونِ آزادی ہند کی رو سے، جغرافیائی محلِ وقوع کے تحت، آبادی کی اکثریت کی رائے کے تحت، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت اور پھر سب سے بڑی بات بین الاقوامی طور پر تسلیم کی گئی جمہوری اقدار کے تحت کشمیر ہر صورت میں پاکستان کا حصہ ہے۔ اس کی بڑی وجوہات یہ ہیں کہ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی کُل آبادی 40,23,483، تھی جس میں مسلمان آبادی 31,20,700 ،تھی جو کشمیر کی کُل آبادی کا 77.11 ،فیصد تھی جس میں ایک چوتھائی سے بھی کم غیر مسلم آبادی تھی۔جن کا تناسب 23، فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ اس وقت جموں میں مسلمانوں کا تناسب 61.3 ،فیصد تھا جبکہ غیر مسلموں کا تناسب ساڑھے 38، فیصد تھا۔وادیِ کشمیر میں مسلمان آبادی کا تناسب ساڑھے 93 ، فیصد تھا۔جبکہ غیر مسلم آبادی کا تناسب صرف ساڑھے 6، فیصد تھاجموں و کشمیر کے سرحدی اضلاع میں مسلمان آبادی کا تناسب 89، فیصد تھا جبکہ غیر مسلم آبادی ان اضلاع میں صرف 11، فیصد تھی۔ اس طرح پورے جموں و کشمیر کی مسلمان آبادی ہر لحاظ سے بے انتہا زیادہ تھی۔جس پر دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں نے شب خون مار کر برصغیر کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی ترقی و خوشحالی کے رستے مسدودکر کے آج آزادی کے 66، سال کے بعد تک ان کا شمار دنیا کی پسماندہ ترین اقوام میں اپنی ضد، انا اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں کرایا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہندوستان کی اول درجے کی قیادت نا عاقبت اندیش تھی۔جس نے پورے خطے کو پسماندگی غربت اور جہالت کے سوئے گذشتہ 66،سالوں میں کچھ نہ دیا!!! کشمیر پر ہندوستانی رویوں کی ساری دنیا میں مخالفت اور تنقید بتدریج ہوتی رہی ہے۔جس کا اثر ہندوستانی قیادت نے کبھی نہیں لیا جو ڈھٹائی کی ایک انوکھی مثال ہے۔
Nawaz Sharif
محترم وزیر اعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر ہندوستان قیادت کو مسئلہِ کشمیر پر مذاکرا ت کی دعوت دی ہے۔انہون نے کہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہِ کشمیر کے پُر امن حل کی تلاش کرنی چاہئے۔تنازعے حل نہ ہونے کی صورت میں خطے کی سماجی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ گذشتہ آدھی صدی سے بھی زیادہ وقت سے خطے کی سماجی ترقی پر مسلسل منفی اثرات کی گمبھیرتا چھائی ہوئی ہے۔جس کا واحد ذمہ دار دنیا کی سب سے بڑی نام نہادجمہوریت ہندوستان ہے۔