تحریر : چوہدری غلام غوث گذشتہ دنوں ایک خبر تمام اخبارات کی زینت بنی جس کا متن یہ تھا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے افراد کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی اور ان کی امداد کے لیے شکر گڑھ ُان کے گھروں میں گئے اس دوران ڈی سی او نارووال نے پروٹوکول کی خاطر پنڈال میں ریڈ کارپٹ بچھایا جس پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب برہم ہو گئے اور ڈی سی او سمیت ضلعی انتظامیہ کی شد ید الفاظ میں سر زنش کی اور آئندہ اسطرح کے اقدامات پر سخت کارر وائی کا عندیہ بھی ظاہر کیا، بے شک وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا یہ اقدام صد قابلِ تحسین ہے جو بظاہر معمولی مگر ایک انیشیٹو ضرور ہے آپ ذرا سوچئے! پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک میں جس کے 12 کروڑ لوگ آٹے، پانی اور دوا کو ترس رہے ہوں اس کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزا ر رہی ہو، اور اس ملک کی ایک غریب ماں اپنے بچے کو اس طرح کی نیند سُلا دے ۔ بقول شاعر:۔
رزاق اپنے رزق کی تقسیم دیکھ لے ماں نے بھوکے لعل کو تھپک کر سُلا دیا
جس ملک میں ایک بھی ایسا تعلیمی ادارہ نہ ہو جس میں حکمران اور اشرافیہ اپنے بچے پڑھا سکیں اور ایک بھی ایسا ہسپتال نہ ہو جس میں وہ اپنا اور اپنے پیاروں کا علاج کروا سکیں جس ملک میں پینے کا صاف پانی اور سانس لینے کے لیے صاف ستھری ہوامیسر نہ ہو اس ملک کے حکمرانوں کو سادگی ، کفایت شعاری اور بچت کی ایسی ہی مثا لیں قائم کرنی چاہیئیں۔
جہاں ہمارے ملک میں ترقی نہ ہونے کی دیگر بہت سی وجوہات ہیں وہاں پر سب سے بڑی ایک وجہ غیر ترقیاتی اخراجات کا بے تحاشا اور نا جائز استعمال بھی ہے جس پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی حکمران سیاسی جماعت با لکل تیار نظر نہیں آتی۔ پیپلز پاڑٹی کا پچھلا دور حکومت اور قبل ازیں (ق) لیگ اور مشرف کے دورِ حکومت کا موازنہ کر یں تو آپکی آنکھیںکھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ سابقہ وزیر ِاعظم یوسف رضا گیلانی اپنے دورِ حکومت میںایک خصوصی طیارے کے ذر یعے مصر کے شہر شرم الشیخ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تشر یف لے گئے اور ان کے وفد میں تین درجن سے زائد افراد شامل تھے۔کانفرنس ختم ہونے کے بعد جب تمام سربراہانِ مملکت اپنے مُلکوں کو واپس لوٹ گئے تو ہمارا وفد وہاں ہی ٹھہرا رہا اور ہمارا سفارت خانہ اُن کو احرامِ مصر، دریائے نیل اور قاہرہ کے تاریخی مقامات کی سیر کروانے کے اقدامات کرتا رہا اور اس دورے پر غریب عوام کے کروڑوں خرچ ہوئے۔
Nawaz Sharif.
اسی طرح وزیرِ اعظم گیلانی درجنوں لوگوں کو لے کر سرکاری عمرہ پر سعودی عرب تشریف لے گئے اس سرکاری عمرے کے دوران وفد کے ارکان نے اپنا ہیئر سٹائل خراب ہو جانے کے پیشِ نظر بال نہیں کٹوائے تو ایسا کرنے پر عمرہ کرنے والوں پر دم پڑ جاتا ہے اور ہمارے سعودی سفارت خانے نے دم پڑنے کے لاکھوں روپے سرکاری جیب سے ادا کیے۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی 60/70 افراد کا وفد لے کر بوئنگ طیارے کے ذریعے امریکہ کے دورے پر گئے وہ جب وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملاقات کر رہے تھے عین اسی وقت امریکی فوج قبائلی علاقوں پر میزائل برسا رہی تھی اور اس سرکاری دورے کا بوجھ بھی مقروض قوم کے ناتواں کندھوں نے اُٹھایا۔ اسی طرح پرویز مشرف اور (ق) لیگ کی حکومت بھی اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی رہی۔ پرویز مشرف نے پانچ سالوں میں غیر مُلکی دوروں پر غریب عوام کے ڈیڑھ ارب روپے اُڑا دیئے۔
امریکہ میں اپنی کتاب کی رونمائی پر 22 کروڑ سات لاکھ روپے خرچ کیے۔ واپسی پر لندن میں اپنے دیرینہ دوست بریگیڈیئر نیاز کے ساتھ بُرج کھیلنے کے لیے رُکے اور 18 لاکھ روپے فی یومیہ کمرہ کرایہ پر لیا۔ امپورٹڈ وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے تو دوروں کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا وہ تو اپنے پینے کے لیے ”مشروبات” تک سرکاری خزانے سے خریدتے تھے۔1998 میں جب وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو اس دوران اسحاق ڈار کی خصوصی دعوت پر شوکت عزیز امریکہ سے تشریف لائے تھے اور اسحاق ڈار اُن کو گورنر سٹیٹ بنک لگوانا چاہتے تھے اس سلسلہ میں اُنہوں نے شوکت عزیز کی لاہور میں میاں نواز شریف سے تفصیلی ملاقات بھی کروائی۔ شوکت عزیز نے وزیرِ اعظم کو کفایت شعاری اور بچت کے ایسے ایسے مشوروں سے نوازا۔ اُن کا فرمانا تھا کہ جہازی سائز کے وزیرِ اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز فی الفور بند کر دیئے جائیں۔
وزیرِ اعظم سادہ سے ایک گھر میں شفٹ ہو جائیں پروٹوکول سرے سے ختم کر دیا جائے، غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کر کے 10 فیصد اور اس مد میں 90 فیصد رقم بچائی جائے۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔میاں صاحب شوکت عزیز کی اس سوچ سے متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے تھے مگر تا ریخ نے پلٹا کھایا اور قسمت کی دیوی شوکت عزیز پر مہربان ہو گئی وہ ملک کے وزیر اعظم بنا دیئے گئے اُنہوں نے آتے ہی پہلی فرصت میں اس ملک کے 8ارب روپے بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے میں اُ ڑائے ،پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین پروٹوکول بھی لیتے رہے دنیا کی سب سے بڑی کا بینہ بنا کر عا لمی ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔
سفارت خانوں میں تعینات اپنے قریبی دوستو ں اور رفقائے کار کو بھی سرکاری خزانے سے نوازتے رہے۔ جب ایک موقعہ پر سینئر صحافی نے اُن کو میاں نواز شریف سے ملاقات کا واقعہ یاد دلاکرکفایت شعاری پر دیا جانے والا وہ درس یاد کرایا جو اُنہوں نے نوازشریف کو دیا تھا ، تو فرمانے لگے 1998اور 2006میں بڑ ا فرق ہے، اب ہم امیر ہو چکے ہیں یعنی ڈالروں کے عوض اپنے شہریوں کو فروخت کر کے زرِمبادلہ سے اپنا خزانہ بھر لیا ہے ۔سا بقہ ادوار کی مثال پاکستانی سیاست کے صوفی اور درویش صفت انسان محمد میا ں سو مرو کی بھی ہے آپ نومبر 2007تا مارچ 2008 کے درمیان نگران وزیراعظم رہے اس دوران آپ نے دوسرکاری عمرے اور ایک حج فرمایا اور آپ کی قربانی اور دم تک کے پیسے پاکستانی سفارت خانے نے ادا کیے اور اس رقم کی ادائیگی آج بھی سفارتخانے کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
Protocol
آخر پر تذکرہ کرتے ہیں موجود ہ حکمرانوں کاجن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) وفاق اور صوبہ پنجاب میں برسرِ اقتدار ہے۔میاں محمد نواز شریف نے اپنے اقتدار کے دوران بہت زیادہ غیر مُلکی دورے کیے ہیں جن پر قوم کے کروڑوں روپے لگے ہیں اِن کے دورِ حکومت میں جب کوئی بھی غیر مُلکی پاکستان کے دورے پر آتا ہے تو سرکاری اخراجات پر ذاتی تشہیر کے لیے لاکھوں روپے کے قد آور پینا فلیکس اور قیمتی بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں۔ میگا پراجیکٹ کے افتتاح ، اس شدً و مدًسے کیے جاتے ہیں کہ اُن پر کروڑوں روپے لاگت آ جاتی ہے غیر منتخب لوگوں کو سرکاری عہدوں سے نواز کر مالِ مفت دلِ بے رحم کی مثال بنا دیا جاتا ہے۔بیش بہا پروٹوکول اور شاہانہ طرزِ زندگی بھی سرکاری خزانے پر گراں گزرتا ہے۔ مقروض ملک کو غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں انتہائی احتیاط کی صرورت درپیش ہوتی ہے۔ تاکہ قوم کے ٹیکسوں کے پیسے بچا کر اُن کو قوم کے بہترین مفاد میں صرف کیا جا سکے اور یہ اقدام حکومت کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب پہلے بھی سرکاری تقریبات میں سادگی اور کفایت شعاری اپنانے کا حکم نامہ جاری کرتے رہے ہیں اور پنجاب میں اس پر کافی حد تک عمل درآمد بھی جاری ہے میری وفاقی اور صوبائی حکومت سے گذارش ہے کہ وہ ایک سال کے لیے رضاکارانہ طور پر غیر ترقیاتی اخراجات پر پابندی لگا دیں اور پروٹوکول لینا چھور دیں اور اس مد میں بچائی جانے والی رقم سے ملک میں ایک ایسا مثالی تعلیمی ادارہ بنوائیں جو حکمرانوںاور اشرافیہ کے بچوںکے پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے معیار کے عین مطابق ہو جبکہ جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ایک ایسا ہسپتال بھی بنوا دیں جس میں حکمرانوں اور اُن کے پیاروں کا علاج اُن کی منشا کے مطابق ہو سکے اور یہ دونوں ادارے عالمی معیار کے مطابق ہونے ضروری ہیںاس سے حکمرانوں کی بیرونِ مُلک جانے سے جان بھی چھوٹ جائے گی اور وہ اُن الزامات سے بھی بری الذمہ ہو سکیں گے جو قوم آئے روز اُن پر لگاتی نظر آتی ہے۔
قارئین جب حکمران عملی طور پر سادگی اور کفایت شعاری کو اپنائیں گے تو یقینا اس کے مثبت اثرات عوام تک منتقل ہوں گے جس سے معاشرے میں سادگی اور کفایت شعاری کا کلچر فروغ پائے گا مُلک میں خوشحالی آئے گی ، ُملک ترقی کرے گا اور یہی حکمرانوں کی خواہش ہے۔