کابل (جیوڈیسک) بین الاقوامی کمیٹی ریڈ کراس نے افغانستان بھر میں اپنے تمام عملے کی نقل و حرکت روک دی، جلال آباد میں اپنے دفتر کو بند کر دیا۔ کابل ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے افغانستان بھر میں اپنے تمام عملے کی نقل و حرکت روک دی ہے اور جلال آباد میں اپنے دفتر کو جسے خود کش بم دھماکے اور فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا بند کر دیا ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے جنوبی ایشیا کے سربراہ جیکوس ڈی مائیو نے جنیوا میں جاری کئے جانیوالے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان بھر میں ہر قسم کی نقل و حرکت روک دی گئی ہے۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کا ایک بھی مندوب یا ملازم سڑکوں پر نقل و حرکت کرتا دکھائی نہیں دیا ہے۔ اس نے کہا کہ جلال آباد میں اپنے ذیلی دفتر کو بند کر دیا گیا ہے اور ہم یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا مسلح گروپوں کے ساتھ اور حکومت کے ساتھ دوبارہ رابطہ کر رہے ہیں۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے افغان تنازع میں بھرپور غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور باور کیا جاتا ہے کہ اسے طالبان اور دوسرے باغی گروپوں کے ساتھ اس کے ورکنگ تعلقات کی وجہ سے حملوں سے تحفظ حاصل تھا۔ کسی بھی انتہا پسند گروپ نے بدھ کی رات کو کئے جانیوالے اس حملے جس میں ایک گارڈ دو گھنٹے کے حملے کے آغاز میں ہلاک ہو گیا ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ڈی مائیو نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ یہ گارڈ غیر مسلح تھا اور وہ اس عمارت کی حفاظت کر رہا تھا جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے قابل قدر خدمات حاصل کر رہے تھے۔ اس نے کہا کہ یہ بیہمانہ اور قابل مذمت اور احمقانہ حملہ تھا۔ ایک بھی ایسا افغانی نہیں ہے کہ جو یہ تسلیم نہ کرے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ پوری طرح آزاد اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں کر رہے ہیں۔
1987 میں افغانستان میں اس تنظیم کے کام شروع کرنے کے بعد سے اس کے دفاتر پر یہ پہلا حملہ ہے۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ملک بھر میں 1800 ملازمین ہیں۔ اس کے عملے کے اراکین کی تعداد 36 ہے جن میں چھ تارکین وطن ہیں۔ عملے کے یہ ارکان مشرقی شہر جلال آباد میں کام کر رہے ہیں۔