روپیے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کا طوفان

Dollar

Dollar

تحریر : سعدیہ ملک

عالمی منڈی میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں کمی باعث تشویش ہے۔ڈالرز کی قیمت 141 روپیہ کے برابر ہو گئی۔پاکستانی روپیہ کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر اس وقت ملک کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ ہے۔جس کی وجہ سے معشیت پیچیدہ اور سنگین مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ عالمی منڈی میں اس کی کرنسی کی قیمت میں کمی ہو کیوں کہ اس کی وجہ سے اس کی معشیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔مہنگائی کا طوفان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس کی وجہ سے غریب لوگوں کا جینا حرام ہو جاتا ہے۔ چوری اغوا منشیات فروشی اور دہشت گردی جیسے جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی امن و امان کی صورتحال متاثر ہوتی ہے۔ہر ملک اپنی کرنسی کو بقیہ ممالک سے اوپر دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس ضمن میں عالمی معشیت کے نزدیک کرنسی محض کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں اصل پس پردہ محرک قوت خرید ہے۔اس کو سمجھنے کے لئے آپ مندرجہ ذیل مثال پر غور کریں۔فرض کریں کہ آپ کسی جنگل میں پھنس جاتے ہیں جہاں آپ کو سخت بھوک لگی ہوئی ہے اور کوئی دوکان نہیں ہے۔پاس ایک قبیلہ آباد ہے۔آپ ان سے کھانے پینے کی اشیاء خریدنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کے بدلے روپے نہیں لیتے آپ ان کو سونا دیتے ہیں مگر وہ نہیں لیتے بلکہ وہ آپ کی بندوق میں دلچسپی رکھتے ہیں اور بندوق کے بدلے آپ کو اشیاء خورد و نوش فراہم کرتے ہیں۔تو بندوق کی قوت خرید کرنسی اور سونے پر سبقت لے گئی ہے۔اگر پیپر کرنسی کو دولت مانا جائے تو انٹرنیشنل اکنامکس ایک ملک کی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں مسابقتی برتری competitive advantage کو دیکھتی ہے۔

وجوہات۔
(1)پاکستان 1947 میں غریب ملک تھا مگر اس کی معاشی حالت دنیا کے بیشتر ممالک سے بہتر تھی.بھارت چین اور دنیا کے بیشتر ممالک سے بہتر معاشیات والے پاکستان کے معاشی منصوبے دنیا کے کئی ممالک اپناتے تھے ابتدائی بجٹوں نے بہترین نتائج پیش کئے۔سیاسی قیادت مثالی اور دیانت دار تھی۔گزشتہ ستر سالوں سے سمجھدار اور تعلیم یافتہ قیادت کے فقدان کی وجہ سے 1947 کے بعد سے لے کر آجتک پاکستانی معشیت کی تنزلی بیرونی قرضوں میں اضافہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ گزشتہ ستر سالوں سے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے اور سنجیدگی سے معاشی منصوبہ جات کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں سے کچھ فوڈ پروڈکٹس اور موبائل فونز کے علاوہ پاکستانی صنعتکاری فروغ نہیں پا سکی۔بیرونی ممالک سے امپورٹڈ اشیا پر وسیع زر مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے۔

(2)حکومت خود کرنسی کی قدر کم کرتی ہے تاکہ ایکسپورٹس بڑھائی جا سکیں۔
(3)جب حکومت ادائیگیوں کا توازن بہتر کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدتی ہے اور ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے۔
(4) مارکیٹ قوتوں کیاثرات
(5) حکومتی کنٹرول کی ناکامی۔
(6) جب حکومت آئی ایم ایف جیسے اداروں سے بیل آوٹ پیکیج لینے کے لیے کڑی شرائط مانتی ہے۔
(7) ڈالر مافیا کا کمال موجودہ حکومت نے بیرونی ممالک سے 250 ارب روپے اکٹھے کیے۔ اسی طرح ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کے ذریعے مزید 260 ارب روپے اکٹھے کیے اور اب حکومت توانائی کے اثاثے گروی رکھ کر 200 ارب روپے حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ پچھلے تین ماہ میں حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 1.8 کھرب روپے کا قرضہ لے چکی ہے چناچہ آ جا کر صرف آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج ہی بچا۔ اس کے لیے آئی ایم ایف نے مندرجہ ذیل شرائط لگا رکھی ہیں۔

(1) روپے کی قدر میں 150 روپے فی ڈالر تک کمی (2) ایکسائز ڈیوٹی کو 18 فیصد تک کرنا (3) بجلی اور دیگر اشیاء پر سبسڈی ختم کرنا (4) شرح سود 8.5 فیصد سے بڑھا کر دس فیصد کرنا جو کہ اسٹیٹ بینک نے کر دی ہے (5) چھ محکموں کی نجکاری
حکومت کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر قسم کا خسارہ ورثے میں ملا۔ اس لیے ہمیں یہ مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔
حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اورتجارتی خسارہ کم نہیں کر سکی۔جس کی وجہ سے روپے کی قیمت میں دن بدن کمی ہوتی جا رہی ہے
روپے کی قیمت میں کمی اور ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کے ملکی معشیت کو نقصانات
ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے عفریت نے غریب عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔

جرائم میں اضافہ
مہنگائی کی وجہ سے بنیادی خورد و نوش کی اشیاء خریدنے میں دقت پیش آتی ہے جس کی وجہ سے نوجوان چوری ڈاکہ زنی منشیات فروشی اور دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں۔
مشنری کی امپورٹ رک جاتی ہے۔

مہنگائی کی وجہ سے مشنری کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے ۔ امپورٹرز کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بیرونی سرمایہ کار جب اپنی کرنسی پاکستانی روپیہ میں تبدیل کرواتے ہیں تو ان کے نفع کی شرح کم ہو رہی ہے۔ امپورٹڈ اشیا کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے لوگوں کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہورہا ہے ڈالرز کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ملک کے لئے خوفناک خطرہ ہے اور یہ قوم سے کئے گئے وعدوں سے انحراف اور کشکول توڑنے کے بجائے آئی ایم ایف سے ڈیل کا نتیجہ ہے۔

حکومت کی معاشی ٹیم کو مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی اور بے روزگاری کنٹرول کرکے ڈالر کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔ کرپشن اورمنی لانڈرنگ کے ذریعہ ملک سے باہر لیجائی جانے والی کھربوں روپے کی رقم کو واپس لایاجائے،حکمرانوں ،وزراء اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات ختم کئے جائیں اور پاکستانی روپے کی قدر کو بڑھانے کے لئے موٗثر اقدامات کئے جائیں بیرون ملک سے منگوائی جانے والی تعیشات پر مبنی مصنوعات پر پابندی عائد کی جائے۔ملک کو معاشیات کے میدان میں مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت مضبوط معشیت ہی ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل ہے۔

SADIA MALIK

SADIA MALIK

تحریر : سعدیہ ملک