ترکی (جیوڈیسک) ترکی میں ہونے والے ریفرنڈم میں صدر طیب رجب اردوان کے موقف کو برتری حاصل ہو گئی ہے اور اب آئینی ترمیم کے ذریعے انھیں وسیع تر اختیارات حاصل ہو سکیں گے۔
لیکن حزب مخالف نے اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم میں بے ضابطگیوں کو الزام عائد کرتے ہوئے اس کے نتائج کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘انادولو’ کے مطابق ڈالے گئے تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے جس کے بعد “ہاں” کو 51.41 فیصد جب کہ “ناں” کو 48.59 فیصد ووٹ ملے۔
ترکی کے الیکٹورل بورڈ کے سربراہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ آئینی ترمیم کے حق میں زیادہ ووٹ آئے اور حتمی نتیجہ آئندہ گیارہ سے بارہ روز میں جاری کر دیا جائے گا۔
ریفرنڈم میں لوگوں سے اس آئینی ترمیم سے متعلق ہاں یا نا میں رائے لی گئی جو ملک میں صدارتی نظام کو مضبوط کرے گی۔ یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد نافذ العمل ہو گی جس کے تحت ملک میں وزیراعظم کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔
اس نئے نظام کے تحت صدر کو وزراء، اعلی حکومتی عہدیداران اور ترکی کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے نصف جج مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامی حکم نامے اور ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اختیار مل جائے گا۔
آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے عہدے کی مدت پانچ سال ہوگی اور دو بار اس منصب پر فائز رہنے کا اہل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت کا رکن بھی رہ سکے گا۔
اردوان کا پرجوش حامیوں سے خطاب
ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد اتوار کو دیر گئے استنبول میں پرجوش حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردوان نے مصالحتی لہجہ میں عوام کا شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے کہا کہ “اپریل 16 ان تمام آٹھ کروڑ لوگوں کی فتح ہے جنہوں نے ‘ہاں’ یا ‘نا’ میں ووٹ دیے۔” لیکن ساتھ ہی انھوں نے قدرے درشت انداز میں کہا کہ “ایسے لوگ بھی ہیں جو نتائج کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کرنے کی کوشش نہ کریں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔”
ترکی کے اس ریفرنڈم سے متعلق مغربی دنیا خاص طور پر جرمنی اور نیدرلینڈز کے ساتھ اردوان کے تعلقات میں تناؤ دیکھا جا رہا تھا۔
اسی تناظر میں اردوان کا کہنا تھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک اور تنظیمیں ہمارے عوام کے فیصلے کا احترام کریں۔”
حزب مخالف کا دھاندلی کا الزام
حزب مخالف اور ناقدین اس آئینی ترمیم کی یہ کہہ کر مخالف کرتے رہے ہیں کہ اس سے ملک میں شخصی حکومت قائم ہو جائے گی۔
حزب مخالف کی جماعتوں نے اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم میں متعدد بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا۔ مرکزی اپوزیشن جماعت ‘ پیپلز ریپبلکن پارٹی’ کے سربراہ کمال کلچداروغلو نے دعویٰ کیا کہ “سپریم الیکٹورل بورڈ نے ریفرنڈم کے درمیان میں ہی ووٹ کھول کر بیچ میں ہی ضوابط تبدیل کر دیے جو کہ قانون کے منافی ہے۔” اسی جماعت کے نائب چیئرمین اردل اکسنجس نے کہا کہ وہ نتائج کو چیلنج کریں گے۔
تاہم الیکٹورل بورڈ کے سربراہ سعدی گوون نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ “(ریفرنڈم) کے بیچ میں ہی ضوابط تبدیل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
حزب مخالف کی ایک کرد نواز پارٹی نے بھی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔
ریفرنڈم کے نتیجے پر مغرب کا محتاط ردعمل
ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد یورپی ممالک کی طرف سے محتاط ردعمل دیکھنے میں آیا۔ یورپی یونین کے تین اعلیٰ عہدیداروں- یونین کے چیف جین کلاڈ جنکر، خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی اور انلارجمنٹ کمشنر جوہانس ہان۔ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ انتخاب کے بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔
آسٹریا کے وزیر خارجہ سبسچن کُرز نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ ریفرنڈم کے نتائج سے انقرہ اور یورپی یونین کے تعلقات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔