تحریر: ملک نذیر اعوان۔ خوشاب قارئین محترم آج اگر موجودہ دور میں مشاہدہ کیا جائے تو ہر بچے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں بڑا ہو کرڈاکٹر،انجینئر،قانون دان اور پائلٹ بنوںمگر بہت کم بچوں کی یہ سوچ ہوتی ہے بڑا ہو کر استاد بنوں گا لیکن ہر انسان کی اپنی (luck)ہوتی ہے۔
قارئین یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے ماڈرن دور میں تھوڑا سا غور کریں تو معاشرے میں رہتے ہوئے استاد کی کوئی عزت و تکریم نہیں ہے اور دوسرے لفظوں میں ہم یوں بیان کر سکتے ہیںجو معاشرے میں ایک استاد کا مقا م ہے شاید اس کو نہیں مل رہا ہے۔استاد کے حوالے سے خلفاء راشدین فرماتے ہیں۔
Islam
اسلام میں معلم کا بہت احترام ہے۔اور استاد کے حوالے سے حضرت علی مرتضی ٰ شیر خدا ارشاد فرماتے ہیںکہ چاہے تمہیں کوئی ایک لفظ ہی کیوں نہ سکھائے وہ تمہارا استاد ہے چاہے تمہیں غلام بنائے یابیچ دے مگر دوسری طرف استاد جسے روحانی والدین کا درجہ بھی دیا گیاہے اور یہ یقینی بات ہے استاد کے حوالے سے ماںباپ کی ذمہ داری اور گھر کی تربیت کا بہت اثر ہوتا ہے۔
بلاشبہ والدین کا سہارا اللہ پاک کے بعد سب سے بڑا سہارا ہے کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو استاد کی عزت واحترام کی تربیت دیںاور یہ یقینی بات ہے گھریلو تربیت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
والدین کو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اپنے بچے کے سامنے استاد کی ہر گز شکایت نہ کریںاگر کوئی ماں باپ ایسا کرے گاتو اس کا الٹ اثر ہو گابچے کے دماغ سے استاد کی محبت اور خوف ختم ہو جائے گا۔ قارئین اس لیے استاد کے حوالے سے والدین کی بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کے سامنے استاد کی کبھی دلزاری نہ کرے بلکہ اپنے بچے کے اندر ایسا شعور پیدا کرے کہ بچہ اپنے استاد کا زیادہ احترم کرے۔