استنبول (جیوڈیسک) ترکی نے شام سے دو دن میں ایک لاکھ کرد پناہ گزینوں کی آمد کے بعد اپنی سرحد کے متعدد داخلی مقامات بند کر دئیے ہیں۔
یہ فیصلہ کرد مظاہرین اور ترک سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کے بعد کیا گیا ہے۔ ترک فوج اور کرد مظاہرین کے مابین تصادم اس وقت ہوا جب ترک سرحد کے اندر کرد مظاہرین نے آزادی کے حق میں جلوس نکالا۔ اطلاعات کے مطابق کچھ مظاہرین نے ترک فوجیوں پر پتھرائو کیا تاہم اس واقعے میں کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ترک فوج ان کرد جنگجوئوں کو شام میں داخل ہونے سے روک رہی ہے جو کوبانی کے دفاع کے لئے وہاں جانا چاہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق دولت اسلامیہ کے جنگجوئوں کی شام کے شمالی علاقوں میں پیش رفت کے سبب ایک لاکھ شامی پناہ گزین سرحد عبور کرکے ترکی میں داخل ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کرد نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں اور ان کا تعلق کوبانی نامی قصبے سے ہے جہاں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوئوں کی کارروائی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف تین سال سے جاری بغاوت کے نتیجے میں شام اور عراق سے متصل ملک ترکی پہلے ہی اب تک آٹھ لاکھ 47 ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کو سر چھپانے کی جگہ دے چکا ہے۔ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ترک حکام بھی مشکلات کا شکار ہیں اور نئے پناہ گزینوں کو پہلے سے ہی بھرے ہوئے سکولوں میں رکھا جا رہا ہے۔
دولتِ اسلامیہ نے حالیہ چند دنوں میں کوبانی کے نواح میں درجنوں دیہات پر قبضہ کیا ہے اور اب اس کا رخ اس کرد قصبے کی جانب ہے۔ شام میں حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند اب کوبانی سے دس سے پندرہ کلومیٹر دور ہیں اور وہ ٹینکوں سمیت بھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ کوبانی کی جنگ کے نتیجے میں مزید ہزاروں افراد ترکی کا رخ کر سکتے ہیں اس لئے امدادی کوششوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔