تحریر : عمران احمد راجپوت گذشتہ ماہ کراچی پی ایس 127 ملیر میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ہار اور پاکستان پیپلز پارٹی کی معجزانہ جیت نے جہاں ایک جانب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو شدید دھچکے سے دوچار کیا تھا وہاں اردو بولنے والا طبقہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا خاموش تماشائی بنا اپنی بے بسی پر ماتم کناں تھا کہ اچانک 16 ستمبر بروز جمعة المبارک کی دوپہر نادیدہ قوتوں کی جانب سے کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر بوچھال برپا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جبکہ سندھ میں آباد اردو بولنے والوں کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی کہ وہ جنھیں اپنا لیڈر سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں اشرافیہ کے سامنے اُن کی حیثیت و وقت کچھ بھی نہیں ہے۔ جس طرح ایم کیوایم پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک پوری قوم نے لائیو دیکھا اور جس طرح ایک متوسط طبقے کے رہنماکی تذلیل کی گئی جس طرح عورت کے تقدس کو پامال کیا گیا جس طرح قانون کے رکھوالوں نے قانون کی دھجیاں بکھیریں اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ایس ایس پی ملیر ، رائو انور کی جانب سے گرفتاری کے وقت جس طرح غیر مہذیبانہ طرزِ عمل اپنایا گیا جیسے کوئی گلی محلے کا چور اُچکا ہاتھ آگیا ہوجسے رسیوں سے باندھ کر سڑکوں پر رسوا کیا جاتا ہے۔ یقینا یہ طریق خود اُنکی ذات پر ایک سوالیہ نشان ہے آخر ایسا کیوں کیا گیا اور اِس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اِس طرف سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔16 ستمبر کے دن اِس ڈرامائی سیاسی ہلچل سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ یہ سارا معاملہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت عمل میں لایاگیا۔ جو کہ اُن مخصوص عناصر کی جانب اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے جو سندھ میں آباد اپنے حقوق کی پاداش میں سرگرداں اردو بولنے والے طبقے کی محرمیوں کو مزید دوام بخشنا چاہتے ہیں تاکہ اندرونِ سندھ میں 2018 ء کے عام انتخابات میں اِن محرومیوں سے اُٹھنے والی صدائوں سے ایک بار پھر اپنی جیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ جب جب سندھ کے شہری علاقوں میں جئے مہاجر کی صدائیں گونجیں گی تب تب اندرونِ سندھ میں جئے سندھ یا سندھو دیش جیسے نعروں میں وزن پیدا ہوگا۔
یہ بات زبان زدعام ہے کہ رائو انور کے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے گہر ے مراسم ہیں جس کی نشاندہی ماضی میں کی جاتی رہی ہے بقول ایم کیوایم پاکستان کے مرکزی رہنما جناب فاروق ستارکے ایسا معلوم دیتا ہے کہ جیسے سندھ حکومت کی ڈوریں دبئی سے کھینچی جارہی ہوں ۔ لہذا قوی امکان ہے کہ کچھ عناصر ملک بھر میں اپنی سیاسی کشتیاں ڈوبتی دیکھ کر اگلے الیکشن میں سندھ کی نییا پار لگانے کیلئے اِس طرح کا فساد برپا کرنا چاہتے ہوں۔ ایسے عناصر کی ہرممکن کوشش ہے کہ مہاجروں کی تذلیل کرکے جس قدر ممکن ہوسکے اُن کے احساسِ محرومی کو جگایا جائے تاکہ مہاجر نہ چاہتے ہوئے بھی عصبیت کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوجائیں جس کی بنیاد پر اندرونِ سندھ معصوم سندھی بولنے والوں کو مہاجروں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔
Sindhi Peoples
سندھ میں بسنے والے عوام کو اِس سازش سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے دوسری جانب موجودہ حالات کے پیشِ نظر مہاجر قوم کی جانب سے اختیار کی گئی خاموش پالیسی جو دراصل 22 اگست کے بعد سے گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ مستقبل میں اپنے لئے کس راہ کا تعین کریں جبکہ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ اردو بولنے والوں کو ایک سے زیادہ گروپس میں تقسیم کرنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور کافی حد تک اِ س میںکامیاب ہوتی نظر آتی ہے ایسی صورتحال میں وہ اپنے لئے کس طرح قیادت کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
قارئین موجودہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں لیکن سندھ میں آباد اردو بولنے والوں کو اپنے لئے کسی ایک راہ کا تعین جلد از جلد کرنا ہوگا اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ وہ ماضی حال اور مستقبل کا بالغ نظری سے جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ فاروق ستار ، آفاق احمد ، اور مصطفی کمال میں سے کسے وہ اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں ۔ جہاں تک مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما آفاق احمد کی بات ہے تو وہ پچھلے چوبیس سالوں سے مہاجر حقوق کے نام پر ایک جماعت بنائیں بیٹھے ضرور ہیں لیکن ایک عرصے سے پاکستان سمیت کراچی کی سیاست میں خود کو غیر فعال کئے ہوئے ہیںاور بوقت ضرورت ہی ایک آدھ بیان میڈیا پر داغ دیتے ہیں جبکہ موجودہ حالات میں اُن کی جانب سے مستقل خاموشی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انھیں مہاجر قوم کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں۔
جہاں تک پاک سرزمین پارٹی کے رہنما سید مصطفی کمال کی بات ہے تو وہ پچھلے سات ماہ سے کراچی کی سیاست میں خود کو منوانے کی ہر ممکن کوشش کرچکے لیکن ابھی تک اردو بولنے والے طبقے کو اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اِس ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی سیاست میں مہاجر پالیسی کو سرے سے حذف کئے رکھا جس کا احساس انھیں کافی دیر بعد ہوا لیکن اُس وقت تک اردو بولنے والا طبقہ انکے لئے اپنی رائے قائم کرچکا تھا۔
Mustafa Kamal
جبکہ مصطفی کمال اکثر اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہتے سنائی دئیے کہ وہ ملکی سیاست میں ایک کوشش کرنے آئے ہیں کراچی کے عوام کو لسانی تعصب کے سحر سے آزاد کرانے آئے ہیں اور اگر وہ اپنی اِس کوشش میں ناکام ہوگئے تو وہ واپس چلے جائیں گے ۔ اب پتا نہیں وہ کس سحر کی بات کررہے ہیں جبکہ وہ خود ایک عرصہ اِس سحر میں مبتلا رہے ہیں اور جو لیڈر مایوسی اختیار کرکے واپس جانے کی بات کرے تو اُس کے لئے عوام کیا فیصلہ کرینگے اِسی بات کو لیکر کراچی و حیدرآباد کے عوام مصطفی کمال پر مکمل بھروسہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے جبکہ عام خیال یہ بھی ہے کہ وہ نادیدہ قوتوں کی ایماء پر یہاں آئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اردو بولنے والوں کے سامنے ڈاکٹر فاروق ستار کی صورت میں ایک ہی قیادت بچتی ہے جسے بنیاد بناکر اپنے لئے ایک نئی راہ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ فاروق ستار اردو بولنے والوں میں وہ واحد شخصیت ہیں جو موجودہ صورتحال میں ہر طرح سے مہاجروں کو قابل قبول ہوسکتے ہیں ۔ فاروق ستار پچھلے 38 سالوں سے نہ صرف مہاجر حقوق کیلئے عملی طور پر کوشاں رہے بلکہ مشکل سے مشکل وقت میں ثابت قدم نظر آئے ۔ 22 اگست کی صورتحال کے بعد جس دانشمندی سے انھوں نے پارٹی کو سنبھالا دیا اور پاکستان کی بقاء و سلامتی کے پیشِ نظر انتہائی سخت فیصلے لئے وہ واقعی قابل تعریف ہیں۔
یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ایم کیوایم کی جگہ کسی اور پارٹی میں یہ صورتحال پیدا ہوجاتی تو وہ شاید پاکستان اور اپنی قوم کے حق میں اتنا بڑا فیصلہ کبھی نہیں لے پاتے جتنا بڑا فیصلہ ڈاکٹر فاروق ستار نے لیا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لئے کس قدر مخلص ہیں ملک کی بقاء اور اُسکے تحفظ کیلئے چالیس سال پرانا تعلق چند منٹوں میں توڑدینا اِس سے بڑا حب الوطنی کا ثبوت اور کیا ہوسکتاہے۔ لہذا مہاجروں کو کسی بھی فیصلے سے پہلے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اصولی بنیاد پر فیصلے کرنا ہونگے اور اپنے لئے ایسی قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا جو واقعی انکے ساتھ مخلص ہو اور انکے بنیادی حقوق کے حصول کو ممکن بناسکے۔
Imran Ahmad Rajpoot
تحریر : عمران احمد راجپوت ای میلallirajhhh@gmail.com: