مہاجر نہیں پاکستانی

Pakistani

Pakistani

تحریر: شاہ بانو میر
قرآن پاک میں اللہ پاک سورة الاعراف میں فرعون کا واقعہ بیان کرتے ہیں، فرعون کو ہم نے گہرے پانی میں غرق کر دیا اور اس کے ساتھیوں کواور اسکے بعد ہم لے آئے ان کو جو کمزور تھے (فرعون کے دور میں غلام بنی اسرائیل قوم ) یعنی یہ کمالات”” کمال”” نہیں “”صاحب کمال”” میرا رب دکھاتا ہے کب کسی غالب کو مغلوب اور کب کسی مغلوب کو غالب کے خاتمے کے بعد برسر اقتدار لانا ہے ۔ فرعونیوں کے ڈوب جانے کے بعد ان کے سجے سجائے محلات ان کے کاروبار ان کے پھلوں سے لدے پھندے باغات اور کھیتیاں سب کی سب کل کے مجبور غلام لوگوں کے حصے میں مل گئیں ۔ سبحان اللہ شہر قائد عرصہ دراز سے بہیمانہ دہشت گردی اور مافیا کے نرغے میں تھا ۔ پورے پاکستان میں امن عامہ کے حوالے سے مسائل تھے مگر شہر قائد میں ہوئی غنڈہ گردی ایسی سفاک جہتیں متعارف کرواتی رہی جو ہر پاکستانی کو سوچنے پر مجبور کرتی رہی کہ اپنے مارتے ہیں تو بھی چھاؤں میں مارتے ہیں، یہ کیسا انداز ہے کہ بھارتی نفرت کا اظہار برملا ہو رہا ہے ۔

بوری بند لاشیں اعضاء کو کاٹ کاٹ کر بربریت کا وحشت کا ہراس کا خاص ماحول پیدا کیا گیا کہ
مارنے والی کی نفرت کی شدت اس لاش کی زبانی سمجھی جائے ۔ بچوں کے اغواء خواتین کی آبرو ریزی آئے روز مارکیٹوں میں آتشزدگی تباہی ہی تباہی ہر صبح لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکلنے والے نہیں جانتے تھے کسب حلال سے واپسی ممکن ہوگی یا نہیں؟ پاکستان کے اندر کراچی اپنی نوعیت کا الگ تھلگ دہشت گردی کا مرکز بن کر پوری دنیا میں الگ شناخت سے پہچانا جانے لگا ۔
مہاجر وہ لوگ جو بھارت سے پاکستان آئے اب آگٔئے تو پاکستانی کہلائے مگر مشرقی پاکستان کو نگلنے کے بعد اب بھارتی خفیہ ایجنسی را کی نگاہیں براہ راست پاکستان پر نہیں تھیں ۔ مگر وہ سکون سے بستے ہنستے اس ملک کے باسیوں کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ لہٰذا گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مِصداق نجانے اس سب سے بڑی منظم سیاسی جماعت کے ساتھ اس نے کس قسم کا گٹھ جوڑ کیا کہ آئے روز تقاریر کا خوفناک سلسلہ شروع ہوا ۔

Indian Agenda

Indian Agenda

کیا ٹی وی مالکان کیا دیگر نشریاتی ادارے سب کے سب باوجود اثر و رسوخ کے اس جماعت کی دھمکیوں سے ڈر کر ان تقاریر کو براہ راست دکھانے پر مجبور تھے ؛ نہ دکھانے کی صورت میں انجام ؟؟؟ تقاریر کیا تھیں بھارتی ایجنڈا تھیں ہمہ وقت ملک کیلئے متعصبانہ رویہ بار بار مہاجر مہاجر کی تکرار وہ نسل جو پاکستان سے آئی وہ خود کو مہاجر کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہو یا اپنے حقوق کی جد وجہد کیلئے ایک سنہرا پتہ ہاتھ آگیا جسے خوب استعمال کیا گیا مگر ان کے بچے جو اس پاک زمین میں پیدا ہوئے وہ تو خالص پاکستانی تھے ۔

اس کے بعد دوسری تیسری نسل سوچنے پر احتجاج پر مجبور ہے جو ہے ہی پاکستانی ہر انداز سے کہ اسکو مہاجر کہہ کر اسکے اور دیگر پاکستانیوں میں فاصلہ کیوں کشید کیا جا رہا ہے؟ خصوصا اب جبکہ ہر طرف شور مچ گیا کہ ایک سیاسی معروف زور آور ہستی بھارتی ایجنٹ ہیں تو اس الزام کی ذلت ہر مہاجر اپنی ذات پے محسوس کر رہا ہے مہاجر کی چھاپ پرانے لوگ اپنے قائد کے نام پر لگانا عزت افزائی سمجھتے تھے لیکن یہ نسل جو اسی ملک کے خمیر سے اٹھی ہے اسے یہ تمغہ حسن کارکردگی (مہاجر) اس جماعت کی جانب سے ہر گز نہیں بھایا ۔ لاکھوں بچوں کو جرائم کی دنیا میں صرف اس لفظ نے دھکیلا اپنی تعلیمی ڈگریاں اسی تعصب کی نذر کر کے خود کو اپنے خاندان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دے ڈالی ۔

آج کوئی پرسان حال نہیں ہے ان کا ؟ سولی پے چڑھنے تک کا معاملہ جب آیا تو اس وقت حساس ذہن سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا مستقبل ہے ان کے بچوں کا اپنے پاکستان میں؟ وہ مہاجر ہیں یا پاکستانی؟ جب اس جماعت کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں گرفتار شدگان اراکین سے مکمل انکار سامنے آیا تو وہ زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا جیلوں کو بھرنے والے سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم نے چمچہ گیری میں غیرت کا جنازہ نکال دیا اور حاصل کیا کیا؟ ہمیں چھوٹے جرأئم پے قوم کے نام پے استعمال کر کے بعد میں بلیک میل کر کے بڑے مجرم بنانے والے یوں لا تعلق ہیں کہ گویا جانتے ہی نہیں ؟

Karachi

Karachi

یہی نقطہ آغاز بنا ایک معروف رہنما کی ملک واپسی کا نئی نسل کو مہاجر سے پاکستانی بنانے کا اب جو شخصیت سامنے آئی ہے وہ ماضی میں اہلیان کراچی کے دل جیت چکی ہے ۔ اور جہاں تک ان کی گفتگو کا لب لباب ہے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ عام پارٹی ورکرز جو دہشت گرد نہیں ہیں ۔ان کو بلانے کا باعث بنے ہیں ۔ ان کے آنسو مہاجر قوم کی نسل کو ضیاع سے بچانے کیلئے وہ آئے
نیا پاکستان نیا کراچی بنا رہا ہے۔ ہر بار رینجرز کے آپریشن میں کس جماعت کے ملزمان کے پکڑنے کا ذکر کیا جاتا ہے ؟ اس شخصیت کی پاکستان آمد کے پیچھے وہ تمام خاندان ہیں جو”” مہاجر”” سے”” پاکستانی”” بننے کے خواہش مند ہیں ۔ وہ جان چکے ہیں کہ ڈر خوف کا لبادہ اب جھٹکنا ہوگا اور اپنی نسل کی بھلائی اور نیک نامی کیلئے انہیں سامنے آکر عام پاکستانی بن کر اس شخصیت کا ساتھ دے کر مہاجر کارڈ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہوگا۔

اسٹیبلشمنٹ اگر اس شخصیت کو بلانے کیلئے نامزد کی جا رہی ہے تو کیا غلط ہے؟ نام جب ہر بار”” را”” کا سامنے آئے گا تو مقابلہ آئی ایس آئی ہی کر سکتی ہے دندان شکن جواب اسی کا خاصہ ہے وہ جانیں دے رہے ہیں ہیں نئے ترقی یافتہ پاکستان کیلئے نئی نسل کو اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ جب دہشت گرد ثابت کیا جائے گا تو کیا والدین جن کی زندگی کا قیمتی سرمایہ یہی اولاد ہے میدان میں نہیں آئیں گے ؟ ماضی کا ماحول مختلف تھا اس بار جو انسان علم آزادی لے کر سامنے ہے تو اس پر یقین اور اعتبار کا پیمانہ بہت بھاری ہے ۔ نجات بنی اسرائیل کی آازدی ظالم فرعون سے ہو یا موجودہ دور میں ظالم غیر ملکی ایجنٹوں کا آزادی ہمیشہ ہی حاصل ہوئی اس بار بھی آزادی کا علم فضاؤں میں بلند ہو کر آازادانہ انداز میں لہرانے کو بیتاب ہے 2016 انشاء اللہ مکمل کراچی کی آازادی کا سال ہے مہاجر نہیں پاکستانی بننے کا سال مضبوط قوم ایک سوچ ایک نظریہ کے ساتھ اس کے لئے مہاجر نہیں صرف پاکستانی

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر