اسلام آباد (جیوڈیسک) علاقائی ممالک کی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات بڑھنے کا تناسب بہت کم کیوں ہے، وہ کیا رکاوٹیں اور رویے ہیں کہ پاکستان اپنے خطے اور پڑوسی ممالک سے پیچھے ہے اور بنگلادیش جیسا ملک پاکستان سے آگے نکل گیا۔
چین کی برآمدات 2200 ارب ڈالر سے زائد، بھارتی برآمدات 303 ارب ڈالر، ایران کی تیل کے علاوہ برآمدات 50 ارب ڈالر، حتیٰ کہ بنگلادیش کی برآمدات 41 ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان سے تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔
2001 میں بنگلادیش کی برآمدات بمشکل 6 ارب ڈالر اور پاکستانی برآمدات 10 ارب ڈالر سے زائد تھی، تقریباً گزشتہ 20 سال میں بنگلا دیش کی برآمدات 700 فیصد بڑھ گئی جب کہ پاکستانی برآمدات خطرناک حد تک سست روی کیساتھ صرف 100 فیصد تک ہی بڑھی ہے۔
غیر سنجیدگی، صنعت پر عدم توجہی، جدت کے فقدان اور مربوط پالیسی نہ ہونے کے سبب ہوا یہ کہ پاکستان امپورٹ اکنامی بن گیا جہاں سیب بھی نیوزی لینڈ کے آنے لگے جب کہ بھارت دور کی بات بنگلادیش جیسے ملک پاکستان سے آگے نکل گئے۔
برآمدات کے لیے سارا خام مال اگر امپورٹ کرنا پڑ ے تو برآمدات پرکشش نہیں رہتیں، اسٹیل ترقی کا پہیہ ہے، دیکھتے ہی دیکھتے پڑوسی ملک ایران 20 ملین ٹن اسٹیل بنانے لگا اور پاکستا ن میں نئی بڑی مل بننا تو درکنار 1972 کی اسٹیل تک بند ہوگئی۔
برانڈنگ پر محنت نہ ہونا اور فنشڈ پروڈکٹس کی بجائے بہت بنیادی نوعیت کا مال بنانا بھی پاکستان کی برآمدات نمو میں کمی کی وجہ ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سرکاری ادارے صنعتیں لگوانے میں سہولت کاری کے بجائے ایسی رکاوٹ اور ڈاکے ڈالتے ہیں کہ حوصلہ شکنی کا شکار صنعت کار امپورٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔
بھارتی برآمدات 300 ارب ڈالر سے زائد ہو گئیں اور بھارتی آبادی سائز کے اعتبار سے ہمیں 50 ارب ڈالر تک ہر صورت ہونا چاہیے تھا لیکن حکمران ہوں یا عوام یا صنعت کار، سب امپورٹ اکنامی کو آسان سمجھ کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا اور پاکستان کو خطے میں سب سے پیچھے کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔