پنجاب (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک خطے میں امن کے لیے دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ دوسروں سے بھی اسی جذبے کی توقع رکھتا ہے۔
بدھ کو پنجاب کے علاقے خیرپور ٹامیانوالی میں فوجی مشقوں “رعد البرق” کے معائنے کے بعد اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں جنہیں بیرونی عناصر کی حمایت حاصل رہی ہے۔
لیکن ان کے بقول کوئی بھی ملک اپنی خودمختاری پر ایسے حملوں کی اجازت نہیں دے سکتا اور پوری قوم اور مسلح افواج دشمنوں کے مذموم منصوبوں سے کامیابی سے نمٹ رہی ہے۔
“ہم اپنے خطے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ کسی بھی ملک کی طرف سے پاکستان کی سلامتی اور جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔”
یہ فوجی مشقیں ایسے وقت منعقد ہوئی ہیں جب پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور دونوں ملکوں کی فورسز کے مابین متنازع علاقے کشمیر کی عارضی حدبندی اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے روز فائرنگ و گولہ باری کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
رواں ہفتے ہی پاکستانی فوج نے بتایا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر بھمبر سیکٹر میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے سات پاکستانی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے جسے سنجیدہ اور جامع انداز میں حل کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی موجودہ صورتحال توجہ کی متقاضی ہے۔
بھارت کی طرف سے اپنے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کے علاوہ ستمبر میں اوڑی میں ہونے والے ایک حملے کے دہشت گردوں کو پاکستانی معاونت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔
تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی ہر شکل میں مذمت کرتا ہے جب کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے لیے مبینہ طور پر طاقت کا بے جا استعمال کر رہا ہے اور پاکستان ان کشمیریوں کی سفارتی و اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔