ملی یکجتی کونسل کے زیر اہتمام سیمینار آزادی کشمیر اُبھرتا ہوا سورج

Seminar

Seminar

تحریر : میر افسر امان

ملی یکجہتی کونسل جماعت اسلامی کے امیر، مجائد ملت( مرحوم) قاضی حسین احمد کی جدو جہد سے قائم ہوئی ہے۔ قاضی حسین صاحب کے مطابق، پہلے شیعہ سنی فسادات کے موقعہ پر ملی یکجہتی کونسل بنی تھی۔ اور اب بین المسالک تنازعات کوحل کرنے کے لیے دوبارہ فعال کی گئی ہے۔ اب ملی یکجہتی کونسل نے کام کو آگے بڑھانے کے لیے، مصالحتی کمیشن ،علمی اور تحقیقی کمیشن، اسلامی نظریاتی کمیشن اور خطبات جمعہ کمیشن بنائے ہیں۔ تعلیم کمیشن کے لیے بھی کوشش ہو رہی ہے جس میں پانچوں تعلیمی وفاق شامل ہوگے تاکہ تمام مسالک میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا جائے۔ ان شاء اللہ۔ اس سلسلے میںالفلا ح ہال ایف ایٹ فور اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیر اہتمام سیمینار” آزادی کشمیر اُبھرتا ہوا سورج”منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں سیکر ٹیری جرنل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ صاحب، آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود احمد صاحب ، مسلم لیگ نون کے رہنما اور سینیٹر راجہ ظفرلحق صاحب،تحریک اسلامی کے جناب (ر) ونگ کمانڈر ضمیر اختر خان صاحب، آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر اور صدر ملی یکجہتی کونسل آزاد کشمیرعبدلرشید ترابی صاحب، مرکزی رہنما حریت کانفرنس غلام محمد صفی اللہ صاحب،جمعیت علما ء پاکستان کے رہنما پیر صفدرجیلانی صاحب،سینئر صحافی، جیو ٹی وی اینکر حامد میر صاحب،نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر محمد ابراھیم صاحب،جمعیت علماء اسلام کے سیکر ٹیری اور سینیٹر عبدلغفور حیدری صاحب ، نائب امیر جماعت اسلامی میں محمد اسلم صاحب اور امیر جماعت اسلامی اسلام آباد نصراللہ رندھاوا صاحب اور ملی یکجہتی کونسل کے کارکن شریک ہوئے۔ مقامی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے بھرپور کوریج کے لیے موجود تھا۔

تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبولۖ کے بعدسب سے پہلے (ر) ونگ کمانڈرضمیر اخترخان صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل نے سیمینار کا نام” آزادی کشمیر اُبھرتا ہوا سورج” نام دیا ہے جبکہ میں تو اس خیال کا ہوں کہ ابھی تو آزادی کشمیر کالے سیاہ بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ ابھی بہت مشکلات ہیں۔ کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے بجائے ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہے تا کہ آزادی کشمیر کا اُبھرتا ہوا سورج صحیح سمت چل سکے۔اس کے بعد ممبر اسمبلی آزاد کشمیر اور صدر ملی یکجہتی کونسل آزاد کشمیر سردار عبدالرشید صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہاایک بہادر کشمیر ی عادل ڈار نے فدائی حملہ کر کے کشمیریوں کی نسل کشی کرنے والی فوج کے ٤٤ سے زاہد سفاک سپاہیوں کو جہم رسید کر کے مظلوم کشمیریوںکا بدلہ لے لیا۔ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر بھارت نے پابندی لگا دی۔ اس کے سارے تعلیم اور رفاعی اداروں کو سیل کر دیا ہے۔ یہ وہ عظیم ادارے ہیں جن سے تقریبا ٤٥٠ ہونہار کشمیری تعلیم حاصل کے انجینئر، ڈاکٹر، پرو فیسر، اور مختلف امور میں پی ایچ ڈی کیے ہوئے ہیں۔یہ نامور لوگ دنیا میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ عبدلرشید ترابی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں ملی یکجہتی کونسل کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج ہم کشمیر کی آزادی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ نے بھی اب کشمیر کے متعلق رپورٹیں تیار کرنا شروع کی ہیں۔ اس کے بعد پیر صفدر جیلانی صاحب نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی اور پاکستان کی سینٹ نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے قراردادیں منظور کیں جس سے آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کی حوصلہ افضائی ہوئی ہے۔کشمیر میں ظالم بھارت فوجی کشمیریوں کو ذبح کر رہیں۔ نہ جانے امت مسلہ کے حکمرانوں کو کب غیرت آئے گی۔کشمیریوں کی جدو جہد سے کشمیر جلد آزاد ہو گا۔اس کے بعد غلام محمد صفی اللہ صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ کشمیری پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں۔ دفناتے وقت کشمیریوں کے جنازے پاکستان کے پرچم کے اندر لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے آزادی۔ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں ۔وہ بھارت مخالف مظاہروں میں کہتے ہیں آزادی کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔اس کے بعدحامد میر صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ اچھا ہوا کہ ملی یکجہتی کونسل مسلمانوں میں اتحاد اتفاق پید کرنے کے لیے پھر سے فعال ہوئی ہے۔اس حال میں تو یکجہتی نظر آتی ہے مگر باہر نظر نہیں آتی۔ ملی یکجہتی کونسل کو چاہیے دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی شامل کرے۔انہوں نے کہا کہ کچھ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا سورج گہرے بادلوں میں چھپا ہوا ہے مگر میں تو ان لوگوں میں شامل ہو جن کے نزدیک کشمیر کا سورج اُبھر رہا ہے۔

Seminar

Seminar

کشمیری تن من دھن کی قربانیاں پیش کر کے تو آزادی حاصل کر چکے ہیں۔مسئلہ کشمیر اب میرا اور آپ کا ہے۔ہم اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔پاکستان کو بھی اقوام متحدہ کی بجائے اسلامی پڑوسی ملکوں سے اتحاد کرنا چاہیے۔ ہم نے کشمیریوں کو ظلم کے شکنجے سے آزادی دلانا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ایک شکست یہ ہے کہ وہ فارروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے مایوس ہو گیا ہے۔ کیونکہ وہ اب بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جنگ آزادی کی حمایت کر رہے ہیں۔ بھارت اب کشمیر کے لیے نئی کشمیری قیادت شاہ فیصل اور شیلا رشید کو سامنے لا رہا ہے۔ انہوں نے نئی سیاسی جماعت ”جموں و کشمیر موومنٹ” کے نام سے بنائی ہے۔ مگر یہ بھی کشمیریوں کے آزادی کے بیانیے کے بغیر سیاست نہیںکر سکیں گے۔گورنر راج کا بار بار لگنا بھی بھارت کی ناکامی ہے۔کشمیر سے متعلق پرانے قانون ٣٧٠ اور اے٣٥ کو ختم کرنے میں بھی بھارت کو ناکامی ہوئی۔ٹھیک ہے بھارت اسلامی تعاون تنظیم کا ممبر نہیں اس کو اس کے اجلاس میں نہیں بلانا چاہیے تھا۔عالمی اسٹبلشمنٹ کی سازش ہے کہ کشمیر اور فلسطین مسئلے کو ٹھنڈا کرنا چاہیے وہ اس کے لیے کشمیریوں کو آئر لینڈ کے گوڈ فرائی ڈے اور اس طرح کے دوسرے معاہدوں کی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ مگر کشمیریوں کا کسی ایسی لالی پوپ کو نہیں ماننا چاہیے۔

مکمل آزادی کے بغیر کوئی بھی بات نہیں ماننی چاہیے۔ پروفیسر محمد ابراھیم صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا جس طریقے سے کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں اس تو اب کشمیر ضرور آزاد ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون آگے بڑھ کر اس اعزاز کو حاصل کرنے کی ہمت کرتا ہے۔آزادی بھیک مانگنے سے نہیں ملتی ۔بار بار امن کی بات کرنا کمزوری ظاہر کرتی ہے۔ اگر بھارت لڑنا چاہتا ہے تو ہم بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد اپنے خطاب عبدلغفور حیدری صاحب نے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کی مدد کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان نے کشمیر کا مقدمہ لڑا۔بھارت تو کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود او آئی سی نے بھارت کو اجلاس میں بلا کر زیادتی کی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہماری حکومت کا معذرتانہ رویہ ٹھیک نہیں۔ہم نے جیتی ہوئی جنگ بھارتی پائلٹ کو رہا کر کے ہار دی۔لیاقت بلوچ صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم غیر انتخابی اتحادہے ۔تمام جماعتوں کے ذمہ داروں کو اس پروگرام میں شرکت کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آج کا پروگرام کرنے کا مقصد کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے۔ کشمیری اپنی آزادی کے جانیں لڑا رہے ہیں۔ آزادی کی جنگ وقت مانگتی ہے۔ کشمیری ٧١ سال سے بھارت کے خلاف نہتے لڑ رہے ہیں۔پلومہ کے واقعہ کے بعد بھارت کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے اتحاد اتفاق سے دشمن کے عزاہم کو ناکام بناناہے۔اس کے بعد سردار مسعود احمد صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں لیاقت بلوچ اور عبدلرشید ترابی کا شکریہ اداکرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ملی یکجہتی کونسل کے کشمیر کے متعلق اس سیمینار میں شرکت کی دعوت دی۔ پاکستان کی ہر حکومت نے کشمیر کی آزادی کی جنگ میں ساتھ دیا۔میں مقبوضہ کشمیر جماعت اسلامی پر پابندی کی مذمت کرتا ہوں۔حامد میر نے صحیح کہا کہ اہل کشمیر نے تو اپنا فٰیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔کشمیریوں نے جو ١٩٤٧ء میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا اب تک لہرا رہے ہیں۔علی گیلانی نے کشمیریوں کونعریہ دیا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ رہنا چاتے ہیں بھارتیوں ہمارے ملک سے نکل جائو۔ کشمیری ٨ لاکھ بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔اس کے بعد راجہ ظفر الحق صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیری لوگ امن پسند ہیں۔مگر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ دنیا کی بہادر ترین قوم ہیں۔پاکستان کو اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا کرنی چاہیے۔قاہرہ میں قائد اعظم کی تقریر اب بھی فریم میں لگی ہوئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں مسلمان اکھٹے رہ کر قوت بن سکتے ہیں۔

آپ انہیں کیوں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم نے ان سے کہا کہ آپ کا یونان،فرانس، برطانیہ اور ایران کی تہذیب سے واسطہ پڑا ہے لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں آپ ہندوئوں کی تہذیب کو نہیں سمجھتے۔ہندو ان سب سے زیادہ مکار ہے۔ اقوام متحدہ میںراجیو گاندھی نے بھی اپنے نانا کی طرح کشمیریوں کو رائے شماری دینے کا اقرار کیا تھا۔ میں اس قوت وہاں موجود تھا۔ میں نے یہ گفتگو ریکارڈ کر پاکستان کی وزارت خارجہ کو دی تھی مگر اس پر کچھ نہیں کیا گیا۔ پاکستان اپنے آئین کے مطابق اسلامی دنیا سے اتحاد کرنے کا پابند ہے۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو ایران سمیت اسلامی ملکوں نے بھر پور مدد کی تھی۔میں ملی یکجہتی کونسل کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آزادی کشمیر اُبھرتا ہوا سورج پر سیمینار کر کے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی مکی ہے۔ آخر میں میاں اسلم صاحب کی دعاء سے سیمینار:۔ ”آزادی کشمیر اُبھرتا ہوا سورج اختتام پذیر ہوا” شرکاء کی چائے بسکٹ سے تواضع کی گئی۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان