تحریر۔۔۔ شفقت اللہ خان سیال روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہروں میں ٹریفک میں بھی اسی تنا سب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرنے اور ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیئے حکومت پاکستان نے قوانین رائج کیے ہوئے ہیں اور ان قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لیے ٹریفک پولیس اور وارڈن کے محکمے بھی قائم کیے ہوے ہیں ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لئے بورڈ وغیرہ آویزاں کیے ہوے ہیں ضلع جھنگ میں ابھی تک ٹریفک وارڈنز تو نہیں آئے لیکن ٹریفک پولیس اس کام کو سرانجام دے رہی ہے سردی ۔گرمی ۔دھوپ ۔چھائوں ۔آندھیاور بارش کی پرواہ کیے بغیر ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے آپ کو اکثر نظر آئیں گے ضلع جھنگ میں ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے الیکٹرک اشارے موجود نہیں یا شاہد یہاں ایسا کوئی روڈ نہیں جہاں الیکٹرک اشاروں کی ضرورت پٹرے جھنگ میں ایوب چوک ایسی جگہ ہے جہاں سے بہت زیادہ ٹریفک گزرتی ہے
لیکن وہاں موجود بس سٹینڈز کی وجہ سے اکثر بلاک رہتی ہے اور پریشر ہارن کے بے دریغ استمال کی وجہ سے قریبی آبادی شور کی آلودگی سے پریشان رہتی ہے ویسے اس شہر میں الیکٹرک اشاروں کا نہ ہونا شہر کے ایم این اے اور ایم پی اے کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے شہر کی تعمیر وترقی میں کس لگن اور ایمانداری سے حصہ لیا خیر یہ ایک الگ مسئلہ ہے بات ہو رہی تھی ٹریفک پولیس کی ۔جھنگ میں ٹریفک کا نظام عجیب ہے بائیں چلنے کی نجائے یہاں کی عوام دائیں طرف گاڑیاں دوڑانا فرض عین سمجھتے ہیں اور یہ نظارہ فوارہ چوک سے سیشن چوک کی طرف جانے والے روستے پر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے گول چکر والے چوراہوں پر تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کون کس طرف سے آرہا ہے
کس طرف جا رہا ہے بلکہ قانون کے مطابق گاڑی چلانے والے ڈرائیورکو اس طرح گھورا جاتا ہے جیسے وہ کوئی عجیب مخلوق ہو۔یہ مشاہدات فوارہ چوک اور ایوب چوک پر کیے جا سکتے ہیں وہاں پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکار ایک سائڈ پر کھٹرے نظر آتے ہیں یا کبھی کبھی جب کام کرنے کو دل کرے تو صرف موٹر سائیکل سواروں یا رکشہ ڈرائیوروں کوروک کا غذات چیک کرتے ہیں ۔کسی غلط ڈرایئونگ کرنے والے کارسوار کو روکنا بھی گستاخی سمجھتے ہیں اور موٹر سائیکل سواروں میں سے ان کو روکتے ہیں جو چہرے سے شریف اور بھلا انسان محسوس ہو۔ اور ان حضرات کو غلطی بتائے بغیر جرمانے کرکے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہیں۔
Rescue
موٹر کار والوں کا سامنا کرنے کی جرات اس لیے نہیں کرتے کہ جھنگ میں چلنے والی اکثر کاروں کی نمبر پلیٹ پر ایم این اے۔ایم پی اے درج ہوتا ہے کسی پر پولیس کی نمبر پلیٹ لگی ہوتی ہے اور اکثر موٹر سائیکلوں کا بھی یہی حال ہے یہاں تک کہ بغیر نمبروں والی گاڑیوں پر نمبر پلیٹ کی جگہ ایم این اے،ایم پی اے، پولیس، ریسکیو۔ صدر انجمن تاجران وغیرہ کے علاوہ کچھ درج نہیں ہوتا اور اکثر ایسی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہیں لیکن قانون سب کے لیے برابر ہے کوئی اس سے بالاتر نہیں ۔قانون پر عمل درآمد کروانا انتظامیہ کا کام ہے ٹریفک پولیس اہلکار کو ایسی نمبر پلیٹ والی یا تحریروں والی گاڑیوں کی چیکنگ زیادہ کرنی چاہیے کہ جس ادارئے ایم این اے،ایم پی اے،وغیرہ کا انہوں نے نام تحریر کیا ہے
کیا سوار کے پاس ان کا اتھارٹی لیٹر موجود ہے ۔گاڑی کے کاغذات وغیرہ موجود ہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ایسے لوگوں کو زیادہ جرمانہ کرنا چاہیے تاکہ قانون کی حکمرانی قائم ہو ۔اس کے علاوہ ایک گذارش ٹریفک پو لیس اہلکاروں سے بھی ہے کہ جو شریف شہری قوانین کی پابندی کر رہے ہیں انہیں بلاوجہ جرمانے نہ کریں۔ویگنوں۔بسوں وغیرہ کے کرایہ میں کمی کی گئی ہے ۔مگرآج بھی کئی گاڑیوں کے مالکان پہلے والا کرایہ وصول کر رہے ہے۔اور جیسا کہ سب کو معلوم بھی ہے ۔کہ اوورلوڈنگ کا سلسلہ تو ان لوگوں نے کبھی ختم ہی نہیں کیا۔جس گاڑی کوبھی دیکھواوورلوڈنگ وہ عام کر رہے ہے۔
کئی ہائی ایس ڈرئیوار حضرات تو ایسے ہے جن کے پاس اپنا لائسنس تک نہیں مگر وہ روڈ پر گاڑیاں ایسے چلا رہے ہے جیسے وہ بہت بڑے ڈرئیوار ہے اور ان کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔آپ چنگ چی موٹر سائیکل رکشہ ڈرائیوروں کو ہی دیکھ لو ۔ہر طرف یہ رکشہ لے کر چلا رہے ہیں۔ان میں اکثریت لوگوں کے پاس ڈرائیونگ لاسنس ہی نہیں۔اور اکثریت ایکسیڈیٹ کی وجہ بھی موٹر سائیکل رکشہ ڈرائیور ہے ۔جن کو معلوم ہی نہیں کہ ڈرائیونگ کسے کرنی ہے۔ایوب چوک ۔سرگودھاروڈپٹرول پمپ لاری اڈا۔سرگودھاروڈ نیاز پٹرولیم۔سرگودھا روڈ حفاظتی بند یہ ایسی جگہ ہے جہاں ان موٹر سائیکل رکشوں کی بھرمار ہے کم عمر نوجوان رکشہ ڈرائیور بنے ڈرائیونگ کررہے ہے۔اور یہ لوگ اس کو ایسے سپیڈ میں چلاتے ہیں چاہے
کوئی گاڑی کے نیچے آئے یا کسی کے ساتھ ایکسیڈیٹ ہو ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہیں لیا گیا۔اگر ایکشن لیا ہوتا تو یہ کم عمر لڑکے یوں مین سڑکوں پر ایسے رکشے لے کر نہ پھر رہے ہوتے۔ میں حکام بالا سے مطالبہ کرتا ہو کہ ان چنگ چی رکشوں کو جوبغیر لایسنس کے ڈرائیونگ کر رہے ہے یا جو کم عمر رکشہ چلا رہے ہے ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔اور جو ہائی ایس ۔بس وغیرہ کے ڈرئیوار حضرات اوور لوڈنگ اور کرائے زیادہ وصول کررہے ہیں ۔ان کے خلاف سخت ترین آپریشن کیا جائے۔ اور گورنمنٹ نے جو کرایہ نامہ دیا ہے اس پر عمل کروایا جائے۔اور جن کے پاس ڈرائیونگ لائیسنس نہیں ان کے خلاف بھی سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔