کراچی (جیوڈیسک) آلو کی ایکسپورٹ کے لیے مقامی طلب کو نظر انداز کیا گیا تو صارفین کو اس سال بھی آلو کے بحران کا سامنا ہو گا۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کے پاس آلو کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار کا حتمی اندازہ مرتب کرنے کا کوئی سائنسی نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے گزشتہ سیزن آلو کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ سیزن متعلقہ اداروں نے حکومت کو وافر مقدار میں آلو کی دستیابی کی گمراہ کن رپورٹ دی تھی، جو وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی ہر اجلاس میں دہراتے رہتے تھے، مگر حقائق ان رپورٹوں یکسر مختلف ثابت ہوئے جبکہ اصل پیداوار کا آلو بڑے پیمانے پر آلو اسمگلنگ کے ذریعے افغانستان اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں کو ایکسپورٹ کردیا گیا ساتھ ہی ایکسپورٹرز نے بھی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے آلو کو میچور ہونے سے قبل ہی نکال کر ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا جس سے طلب ورسد کے تمام اندازے بھی غلط ہوگئے اور صارفین کو 80 روپے فی کلو قیمت پر آلو خریدنا پڑا۔
رواں سیزن آلو کی نئی فصل بازار میں آنے پر قیمتیں بتدریج کم ہورہی ہیں اور فی الوقت نیا آلو 20 سے 25 روپے فی کلو قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سال بھی آلو کی بڑے پیمانے پر کاشت اور پیداوار کا اندازہ لگایا جارہا ہے تاہم یہ محض اندازہ ہے اور حد سے زیادہ ایکسپورٹ اور بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی صورت میں صارفین کو ملنے والا ریلیف بھی عارضی ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے آلو کی مقامی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے آلو کی برآمد پر حد مقرر کی جائے مقامی مارکیٹ میں آلو کی قیمت بڑھنے کی صورت میں فوری طور پر ایکسپورٹ پر پابندی عائد کردی جائے۔
ہر قسم کی غذائی اشیا کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے فوری اور بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ صارفین نے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی سطح پر طلب اور رسد کے فرق پر ایکسپورٹ کے اثرات کی نگرانی کے لیے میکینزم تشکیل دیا جائے۔