سینکڑوں کاروباری شخصیات کے ہمراہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا تاریخی دورہ پاکستان دونوں برادر اسلامی ملکوں کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل اور سنہرے دور کا آغاز ہے۔ یوں تو 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان گہرے دوطرفہ تعلقات چلتے آ رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان 1951ء میں دوستی کے معاہدے پر بھی دستخط کئے گئے، جس کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے درمیان تجارتی، دفاعی اوراقتصادی تعلقات مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہیں۔دنیا میں سعودی عرب واحد ایسا ملک ہے جہاں85 لاکھ اوور سیز پاکستانیوں میں سے 22 لاکھ سے زیادہ پاکستانی موجود ہیں جو کسی بھی ملک میں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، سعودی عرب میں موجود یہی پاکستانی سب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔
جبکہ پاکستان میں کچھ عمارتیں اور مقامات بھی ایسے ہیں جو دونوں ممالک کی دوستی، دوطرفہ تعلقات اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ان میں ایک نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ہے جو کہ سعودی عرب سے ملنے والی 10ملین امریکی ڈالر کی گرانٹ سے قائم کی گئی، اسلام آباد میں فیصل مسجد بھی دوطرفہ تعلقات اور باہمی دوستی کا تاقیامت رہنے والا مظہر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد بھی ، جس کا نام لائل پور سے بدل کر سعودی شاہ فیصل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اور لاہور اور رحیم یار خان میں واقع شیخ زاید ہسپتال بھی سعودی دوستی کا بہترین مظہر ہیں۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، اور سعودی ولی عہد کا یہ دورہ اس وقت ہوا ہے جب پاکستان معاشی بحران کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دور ہ پاکستان کے دوران تقریبا ً20 ارب ڈالر ، یعنی 28 کھرب روپے سے زائد کے مختلف معاہدوں سمیت، سعودی عرب نے دیامر بھاشا، مہمند ڈیم منصوبوں کے لئے بھی فنڈز دینے کا خوش آئند فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے ولی عہد محمد بن سلمان کے تاریخ ساز دورہ پاکستان کے حوالے سے بتایا کہ ان کے دورے میں طے پانے والے معاہدوں کے بعد پاکستان اور سعودی عرب ناقابل شکست و ریخت اسلامی بندھنوں میں بندھ جائیں گے۔
اس سے قبل دونوں برادر ملکوں کے درمیان دوطرفہ معاشی اور اقتصادی تعلقات ،دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے سیاسی تعلقات کے حجم کی نسبت بہت کم تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کی برآمدات کا حجم اس کی کل برآمدات کا صرف 1.77فیصد تھا، اور ان برآمدات کا زیادہ تر حصہ ٹیکسٹائل اور غذائی مصنوعات پر مبنی تھا۔ دوسری طرف پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات زیادہ تر تیل اور اس سے منسلک مصنوعات تک محدود تھی۔نئے معاہدوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برآمدات ودرآمدات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو اس حوالے سے انتہائی خوش آئند بات ہے کہ آنے والے وقتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادیات، معاشیات اور تجارت سے متعلق تعلقات میں مزید اضافہ ہو گا جس سے دونوں ممالک میں استحکام اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
سعودی عرب آر این جی پلانٹ، سندھ اور بلوچستان میں قابل تجدید توانائی اور آئل ریفائنری قائم کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ریفائنری سے اضافی پیداوار ایکسپورٹ بھی ہوگی۔ خوراک و زراعت میں بھی دو سال میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ سعودی عرب نے تیل و گیس،زراعت، توانائی ،پیٹرو کیمیکل، فوڈ ،پروسیسنگ ، کنسٹرکشن سمیت معدنیات، خدمات اور آئی ٹی کے بھی متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان عالمی حالات سے مکمل آگاہی رکھنے والے پڑھے لکھے حکمران ہیں جو کہ پاکستان کے بعد چین، ملائیشیائ، انڈونیشیاء اوربھارت کا بھی دورہ کریں گے۔
سعودی ولی عہد اپنے ملک کو جدید خطوط پر اور عہدے حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، اور کرپشن کے خلاف کوششیں کرتے ہوئے سعودی عرب کو ایک جدید ملک بنانے میں مصروف ہیں، جبکہ ہماری قیادت کا وژن بھی محمد بن سلمان کے وژن سے ملتا جلتا ہے، اس صورتحال میں سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں طے ہونے والے معاہدات دونوں ممالک کے لئے انتہائی کارگر ثابت ہوں گے، اور دوطرفہ تجارتی واقتصادی تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مزید پھلیں پھولیں گے، پاکستان کی معیشت یقینا مضبوط ہو گی اور پاکستان معاشی طاقت بننے کی پوزیشن میں آئے گا۔ سعودی ولی عہد کے اس عظیم الشان دورے سے اہل پاکستان میں دلی خوشی محسوس کی جارہی ہے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033