پاک افغان تعلقات میں اتار چڑھائو کسی سے پوشیدہ نہیں نیز سیاسی معاملات کی حدت میں کھیلوں کو دشمنی کے لیے تیر کمان بنانا بھارت کا وتیرہ رہا ہے۔ کھیل، سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں انتہا پسندی ہندو شدت پسندوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے جاری ہیں۔ پاکستان و بھارت کرکٹ میچ میں روایتی حریف ہیں اور ہمیشہ دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیموںمیں سخت تنائو و سنسنی پائی جاتی ہے۔ شائقین کرکٹ میچ کو زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی ٹیموں پر براہ راست پریشر پڑتا ہے اور عوامی دبائو کے سبب کھلاڑیوں کے درمیان بھی کبھی کبھار تلخ کلامی ہوجاتی ہے۔ دونوںکرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کا بخار دنیا بھر کے شائقین کرکٹ پر یکساں سر چڑھ کر بولتاہے۔ دیگر ممالک یقیناًپاک، بھارت میچ کے ٹاکرے کی سنسنی، جذباتی نعروں،جھنڈوں اور شور شرابے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دیکھنے والوں میں کمزور دل کے مریضوں پر پابندی لگادی جاتی ہے کہ ان کی حالت خراب ہوسکتی ہے، اس لیے وہ سنسنی خیز مقابلے دیکھنے سے پرہیز کریں۔
کھیل، سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کومنفی سیاست کے لیے استعمال کبھی اچھا اقدام تصور نہیں کیا جاتا۔ تاہم پاکستان نے کرکٹ ڈپلومیسی سے پاک، بھارت تعلقات کو بحال کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ جنرل ضیا الحق کرکٹ ڈپلومیسی کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ فروری1987میں پاک، بھارت کے درمیان سیاسی فضا انتہائی مکدر تھی۔پاکستانی ٹیم ان حالات میں سخت دبائو کے باوجود بھارت میں پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیل رہی تھی۔ اُس وقت کے کپتان موجودہ وزیر اعظم عمران خان تھے، دونوں ممالک کے درمیان سخت تنائو کے سائے تھے کہ جنرل ضیا الحق جے پور کرکٹ کا میچ دیکھنے پہنچ گئے،پاکستان کے اُس وقت کے صدرو فوجی حکمران کی بھارت آمد پر پوری دنیا حیرا ن رہ گئی۔ لیکن جب جنرل ضیا الحق واپس پاکستان آئے تو پاک، بھارت جنگ کے سائے ختم ہوچکے تھے۔ ضیا الحق ا ور راجیو گاندھی کی کرکٹ ڈپلومیسی کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔اس وقت امریکی اخبار ایل اے ٹائمز کی سرخی تھی: ‘پہلی ہی پچ پر جنگ کا ذکر ختم، انڈیا میں ضیا کی کرکٹ ڈپلومیسی کامیاب’۔جے پور کا میچ ڈرا ہوا، عمران خان مین آف دی میچ رہے، لیکن کرکٹ کو اس وقت حقیقی معنوں میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا اچھا اقدام تصور کیا گیا۔
بین السطور پاکستان کی سرزمین پر کرکٹ سیکھنے والے اُس افغانستان کرکٹ ٹیم کا ذکر کرنا مقصود ہے جنہیں کرکٹ کا بلا پکڑنا اور گیند کرانا پاکستان نے سکھائی، پاکستان کے میدانوں، گلیوں، کلب اور علاقائی سطح پر جوان ہونے والے معروف افغانی کرکٹر زکی تربیت اور ٹیم کوبین الاقوامی کرکٹ میں لانے کا سہرا پاکستان کو جاتا ہے، جس طرح بنگلا دیش کے لیے پاکستان نے ”تعاون” کیا، اس سے بڑھ کر پاکستان نے افغانستان کرکٹ ٹیم کو انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھایاجس کے لیے آئی سی سی بھی پاکستان کی معترف ہے۔
بد قسمتی سے کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل بھی افغانستان کرکٹ ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں کا رویہ انتہائی تضحیک آمیز اور اشتعال انگیزرہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ بھارت، بنگلا دیش کے ساتھ ساتھ افغانستان کرکٹ ٹیم کی سیاست سے آلودہ کھیل کی اشتعال انگیزی کو سمجھتے رہے ہیں، اس کے ساتھ پاکستانی عوام بھی جانتے ہیں کہ بھارت تو ان کا ازلی دشمن ہے اس لیے وہ فطرتاً ان کا مخالف ہے، بنگلا دیش بھی بھارت کے نقش قدم پر ہے۔ اسی طرح افغانستان میں بھارت کی چانکیہ سیاست کی وجہ سے پاکستا ن کے خلاف سازشیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔لیڈز کے میدان اور اسٹیڈیم سے باہر جو تماشا ہوا اور کرکٹ کے ماحول کو خراب کیا گیا، وہ انتہائی افسوس ناک رہا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاک، بھارت میچ میں بھی چند افراد نے پی ٹی ایم کی ٹوپی پہن کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی کوشش کی تھی جس پر پاکستانیوں نے سخت ردعمل دیا، پولیس نے اس موقع پر کسی ناخوشگوار واقعے کو رونما ہونے سے روک دیا۔ ان افراد کی ظاہری شناخت آشکار کررہی تھی کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔
عالمی میڈیا،کرکٹ کے ان بڑے مقابلوں کو کور کررہا ہے اور اس سے جڑے ہر معاملات و واقعات کو اپنی رپورٹ کا حصہ بناتا ہے، یہی وجہ تھی کہ پاکستان مخالف عناصر نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی کمیونٹی خاص کر پختون قوم نے ان کی اس سازش کو ناکام بنادیا۔ بھارت کی کامیابی کے بعد پاکستان مخالف عناصر نے اپنے جس تعصب و عناد کا اظہار کیا، وہ آنے والے وقت کی نشاندہی کررہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے دوران میچ کے موقع پر ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ان خدشات کو تقویت اُس وقت ملی جب افغانستان کرکٹ ٹیم کے کپتان گلبدین نائب نے پاکستان سے مقابلے سے قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ”اگرچہ افغانستان ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہو گیا ہے مگر وہ جانتے ہیں کہ ابھی اور کئی ٹیمیں اس دوڑ میں ہیں سو افغانستان اور کچھ نہ سہی، ان کے چانسز تو خراب کر سکتا ہے”۔ واضح رہے کہ افغانستان کرکٹ بورڈ کی حالیہ پابندیوں کے سبب افغان پلیئرزپر پریس کانفرنس میں اردو بولنے پر پابندی ہے۔مگر انڈین صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اردو بولنے سے دریغ بھی نہیں کرتے۔دوسری ٹیموں کے چانسز ‘خراب’ کرنے پر جب کرِک اِنفو کی شاردا اُگرا نے گلبدین سے بات کی تو گلبدین نائب نے بے ساختہ اردو کا ایک مصرعہ کہا،’ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے’۔پاکستان اور افغانستا ن کے درمیان سنسنی خیز مقابلہ ہوا۔ پاکستان نے اپنے تجربے و محنت کے ساتھ اعصاب کی اس جنگ میں فتح حاصل کی۔تاہم لیڈز اسٹیڈیم کے باہر اور انکلوژر میں کھیل کے ماحول کو خراب کیا گیا، عماد وسیم پر میدان کے اندر حملہ کی کوشش کی گئی جسے سیکورٹی گارڈز نے ناکام بنایا۔ پی ٹی ایم کی ٹوپیاں پہنے افغانی گروہ اس قدر مشتعل تھے کہ افغانستان کا جھنڈا ان کے اپنے پیروں میں روندا جارہا تھا لیکن انہیں اس بات کی پرواہ نہیں تھی،بہرحال کسی فرد یا گروہ کے ناپسندیدہ عمل کو پوری افغان قوم پر تھوپنا مناسب نہیں ہے۔
کیونکہ کرکٹ میں بین الاقوامی سیاست و سازش کا اثر نفوذ زیادہ ہوچکا ہے اس لئے پاک۔بھارت مقابلے سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کیوںبے آرام رکھا گیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیںرہا۔ پھر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہار کے بعد جس طرح منظم انداز میں کرکٹ ٹیم کا مورال گرانے کے لئے بے ہودگیاں اور اشتعال انگیزیاں کیں گئیں اس کی وجہ بھی سب سمجھتے ہیں، پاکستانیوں کے خلاف جن لوگوں نے پی ٹی ایم کی ٹوپیاں پہن کر تشدد اور کھیل کو خراب کرنے کی کوشش کی ان کا سازشی چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے۔ سب سے توجہ طلب و تشویش ناک ایک سنگین عمل بھی سامنے آیا جب کرکٹ اسٹیڈیم کے اطراف فضا میں ایک پرائیوٹ طیارے کی پرواز کے دوران نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے ”پاکستان مخالف ” بینر لہرائے گئے۔ جس نے ساری سازش بے نقاب کردی کہ پاکستان مخالف قوتوں نے کس طرح مذموم منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔انگلینڈ میں پاکستان سا لمیت کے خلاف ان سازشوں کے پیچھے شائقین کرکٹ کے جذبات نہیں بلکہ مکروہ سازش کارفرما تھی۔ چند شر پسندافغانی یا بھارتی چاہے کوئی ٹوپی بھی پہن لیں ان کے مکروہ بدنما سازشی کردار پاکستان کی سلامتی کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔