تحریر: نام: صباء نورین میرا اور آپ کا کسی نہ کسی صورت تعلیمی اداروں سے تعلق تو رہا ہو گا چاہے استاد کی صورت میں ، طالب علم یا والدین ۔ دور حاضر کی کتب میں اخلاق و آداب تو بتائے جاتے ہیں نظم و ضبط سچائی اور دیانتداری کی باتیں بھی بہت لکھی ملیں گی۔ لیکن ان سب اوصاف کو اپلائی کرنے کا فارمولا نہیں ملے گا۔ کیا یہ سب باتیں (اخلاق و آداب) صرف پڑھا دینے تک یہ ضروری ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کو اپلائی کرنے کا کوئی فارومالا بھی تو ہو گا؟ اور اگر فارمولا ہے تو کدھر ہے؟ جناب یہ فارمولا معاشرہ دیتا ہے لیکن جس معاشرے میں یہ فارمولا صرف زبانی یا د کرنے یا رکھنے کی حد تک ہو وہ معاشرہ میرے اور آپ کے بچوں کو کیا سکھاے گا۔
وہ معاشرہ جس کا ہر فرد رشوت ، چور بازاری لوٹ مار اور مکر و فریب میں مبتلا ہو جس معاشرے کی عدالتوں کا انصاف غریب اور امیرے کے لئے مختلف ہو۔ جس معاشرے میں غریب کا بچہ جرم کرے تو اسے سولی پر چڑھایا جائے اور امیر کا بچہ اگر وہی جرم کر کرے تو اسے کھلی چھوٹ ہے اور وہ سر عام دندناتا پھرے تو وہ معاشرہ ہمیں کون سا فارمولا دے سکے گا؟۔
جس معاشرے کا استاد ، رشوت اور سفارش کی سیڑھی چڑھ کر آپ کے اور میرے بچوں بلکہ قوم کے مستقبل تک پہنچا ہو کیا وہ یہ فارمولا سیکھا سکتا ہے؟ اچھا چھوڑئیے اس بات کا ہی جواب دیتے جائیے اخلاق و آداب نصابی کتب میں شامل کرنیو الے ، پالیسیاں بنانے والے ، اس ملک کے حکمران اور ایوانوں میں بیٹھے خدائی کا دعویٰ کرنے والے ، دھاندلی اور چور بازاری کو سیڑھی بنانے والے ، خود کو ہر قانون سے بالا تر سمجھنے والے، سچائی ، ایمانداری اور انصاف جن کے گھر کی لونڈیاں ہوں کیا وہ یہ فارمولا ہمیں دیں گے ؟ اگر نہیں تو اب کون اُترے گا آسمان سے جو اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے گا۔
Muhammad PBUH
نہیں اب کوئی نہیں اترے گا یہ کام چودہ سو سال پہلے پورا ہو چکا۔ جب اللہ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد ۖ کو اس دنیا میں بھیج کر یہ فارمولا ہمیں سکھا دیا تھا اور رہتی دنیا تک یہ فارمولا ہی رہے گا۔ ”اخلاق + فرائض و آداب = اچھا انسان” اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو کیا دینا ہے صرف اوصاف دلوانے ہیں یا پلائی کروانے ہیں کسی نہ کسی کو تو پہل کرنا ہو گی اپنے لیے نہ سہی اس ملک اور اس کے آنے والے مستقبل کے لئے سہی یہ مشکل قدم تو اٹھانا پڑے گا اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اوصاف دلوانے نہیں یا اپلائی کروانے ہیں!