تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد محبت کا رشتہ بھی ایسا عجیب رشتہ ہے کہ انسان اپنے محبوب کی ہر ادا اور انداز کا نہ صر ف احترام کر تا ہے بلکہ اگر کو ئی شخص کسی کے محبوب کے خلاف معمولی سی ناز یبا بات بھی کہے تو انسان اپنے محبو ب کی خاطر مرنے مارنے پر تیار ہو جاتا ہے لیکن جب محبوب کے ساتھ احترام ، اطاعت و اتباع کا رشتہ بھی قائم ہو جائے تو پھر تو کسی بھی صورت میں کو ئی بھی بات برداشت نہیں کی جاسکتی ، یہ تو عام دنیا کا دستور ہے لیکن جب یہ رشتہ ایک مسلمان کا اپنے پیارے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قائم ہو تاہے تو پھر ایک مسلمان اپنا سب کچھ پیارے پیغمبر علیہ السلام کی ایک چھوٹی سے چھوٹی ادا پر بھی قربان کرنے کو تیار رہتاہے کیو نکہ اللہ رب العزت نے بھی قر آن مقدس میں واضح طور پر اس بات کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” اے میرے نبی ۖ ! فرما دیجئے کہ اگر تمہارے با پ اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈر تے ہو اور وہ حو یلیا ں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اسکے رسولۖ سے اور اسکے راستے میں جہاد کرنے سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ” (سورة التوبہ ٢٤) محتر م قارئین ! جس طرح کفار خصو صاََ یہودی آئے روز مسلمانوں کی سب سے محبوب ہستی کی توہین اور بے حر متی کر نے کی ناپاک جسارت کر رہے ہیں اس کا اصل سبب ہماری اپنی ایمانی کمزوری ہے کیو نکہ ہمارے قول و فعل میں تضاد واضح ہے ایک طرف تو ہم محب رسول ۖ ہونے کے دعوے دار ہیں تو دوسری طرف ہم دشمنان رسول ۖ کی تہذیب ، کلچر ، سیاست اور معاشی ڈھانچے کو اسلامی نظام پر تر جیح دیتے نظر آتے ہیں اگر ہم حقیقت میں محب رسول ۖ ہیں اور اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو پھر آیئے دشمنان رسولۖ کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرتے ہو ئے اپنی زندگیوں کو اسوة رسولۖ کے مطابق گزارنے کی کو شش کریں ، آیئے اب جائزہ لیتے ہیں مختلف چیزوں کا کس طرح ہم سیرت رسول ۖ سے انحراف کرتے ہوئے دشمنان رسول ۖ کی پیرو ی کررہے ہیں۔
اللہ رب العزت نے واضح طور پر اعلان فرمایاکہ عر یانی وفحاشی کے قریب بھی مت جاؤ خو اہ پو شیدہ ہو یا ظاہر ی طور پر ، اسی طر ح نبی کریم ۖ نے فرمایا جو شخص مو سیقی سنتا ہے قیامت کے روز اسکے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائیگا۔ الغر ض اسلام نے ہر اس راستے کو بند کر نے کا اعلان کیا ہے جو مخلو ط تعلیم اور رشتوں کے تقدس کو پامال کر تے ہوئے خاندانی نظام کو تباہ کر نے والا ہو ، دوسری طرف یہودی پر وٹو کولز میں واضح طور پر لکھا ہے ” یہود نے ہر ” ہتھیار ” کو جو چل سکتا ہو خو ب چلا یا اور میزبان ملکو ں کے اخلاق کو تباہ کیا ، انہوں نے اپنی سر گر میاں سیا سی عیاری تک ہی محدود نہیں رکھیںبلکہ عورت کو سیاسی عناصر تک رسائی کیلئے خصوصی ہتھیار بنایا ” اسی طرح یہو دی پر وٹو کولز میں ہی پروٹو کو ل نمبر 1میں عیاشی اور فحاشی کے نام سے سر خی جما کر لکھا ہے۔ ” ذراان بد مست شرا بیوں کی طرف دیکھئے جو نشے میں دھت ہیں اور انسان نہیں بلکہ جانور معلوم ہوتے ہیں ، ان کی مد ہوشی سے لطف اندوزی اٹھائیے ، انکو نظم و ضبط اور قیود سے نفر ت ہے اس لیے انہیں نشیلے مشروبات پینے کا حق پہنچتا ہے ۔ مگر ہمارا راستہ اور ہے اورغیریہوداقوام کاراستہ اور ہے منشیات نے غیریہودلو گو ں کے ہوش و حواس چھین لیے ہیں ان کی نو خیز نسل کو یو نانی و لاطینی علم و ادب ‘ فکر و فلسفہ اور ان کے مخصو ص زاویہ نگاہ کی اندھی تقلید نے حماقت میں مبتلا کر دیا ہے ان کو بے وقوف بنانے میں لڑکپن کی آوارہ مزاجی اور بد قماشی کا بھی بڑا دخل ہے اور ہم نے اپنے خاص ایجنٹوں کے ذریعے انہیں اسطرف مائل کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔
ایجنٹوں سے مرادان کے وہ اتا لیق اور اسا تذہ ہیں جو ان کی تعلیم و تر بیت پر ما مور ہیں ، ان کے خد مت گار ، گھر یلو خادم ، نگرا ن، ولی اور عام طور پر ان کی صحبت میں رہنے والے افراد ہیں ، علاوہ ازیں ان کے اہل دولت و ثروت افراد کے ہاں مقیم استانیاں معلما ئیں اور ہماری وہ عورتیں ہیں جو عیاشی کے اڈو ں پر ان سے ملتی ہیں جہاں غیر یہودی جانا پسند کر تے ہیں ، اس ضمن میں ان نام نہاد سو سائٹی لیڈیزکا بھی ذکر کروں گا جو از خودعیاشی اور آوارگی کر طرف میلان رکھنے والے افراد کواپنے دام تزویرمیں پھانستی ہیں” محتر م قارئین ! آ پ نے یہو دیو ں کے طر ز عمل اور ان کی خوا ہش کا مطالعہ کر لیا کہ وہ کس طرح نو جوان نسل میں نہ صر ف فحاشی کو فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ نشے میںلگاکربربادکرناچاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اے ایمان والو! شراب اورجوا ناپاک شیطانی اعمال ہیں ان سے بچو تاکہ نجات پا جاؤ ” ( المائدہ90 ) اگر آپ حقیقت میں محب رسول ۖ ہیں تو پھر عر یانی و فحاشی اور ہر طرح کے نشے کو چھوڑ کر یہو دونصاریٰ کی مخالفت کریں ۔
محتر م قارئین ! مزید پرو ٹو کو ل نمبر 14میں یہو دیوں کا منصو بہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ ” تر قی پسند اور روشن خیا ل کہلانیوالے ممالک میں ہم نے لغو ، فحش اور قابل نفرت قسم کے ادب کو پہلے ہی سے خو ب فروغ دے رکھا ہے ، عنان اقتدار سنبھالنے کے کچھ عر صے بعد تک ہم عوام کو تقریروں اور تفریحی پروگرامو ں کے ذریعہ مخرب اخلاق ادب کی حو صلہ افزائی کر تے رہیں گے،ہمارے دانشور جنہیں غیر یہود کی قیادت سنبھالنے کی تر بیت دی جائے گی ایسی تقا ریر اور مضامین تیار کر یں گے جن سے ذہن فو راََ اثر قبو ل کر یں گے تاکہ نئی نسلیں ہماری متعین کر دہ راہوں پر گا مزن ہو سکیں۔”
محتر م قارئین ! ر ب کائنات نے قر آن مقدس میں اعلان فرمایا ہے کہ ” سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طر ح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنادے یہ اس لیے کہ کہا کر تے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالا نکہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیااور سود کو حرام ، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کیلئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ حرام کی طرف لوٹا وہ جہنمی ہے ایسے لو گ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے ، اللہ تعالیٰ سود کو مٹا تا ہے اور صدقہ کو بڑھا تا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکر ے اورگہنگار سے محبت نہیں کرتا ” ( البقرہ 275,274) ” اے ایمان والو !اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو اور اگر ایسا نہیں کر تے تو اللہ تعالیٰ سے اور اسکے رسولۖ سے جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ ہاں اگر تو بہ کر لو تمہارااصل مال تمہارا ہی ہے نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے ” (البقرہ ،278,279) محترم قارئین !ایک طرف نبی رحمت علیہ السلام کی مقدس ہستی پر ناذل ہونے والی مقدس کتاب قرآن مجید میں سود کے بارے میں یہ احکامات کہ سودی کاروبار کر نے والے کو اللہ اور اسکے نبی کیخلاف اعلان جنگ کرنے والا قرار دیا ہے تو دوسر ی طرف یہ بات بھی واضح ہو کہ سودی معیشت کے ذریعے لوگوںکمزور کرنے میں یہ یہود و ہنود جو قدم قدم پر پیغمبر رحمت علیہ السلام کی ہجو اور بے حر متی کر تے ہیں پیش پیش ہیں عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی یہ سودی معیشت کے ذریعے دیمک کی طرح کھو کھلا کر رہے ہیں اپنے اسی منصو بے کا ذکر کر تے ہوئے یہودی پر وٹو کولز میں پرو ٹو کولز 20میں تحریر کیاگیاہے کہ ” قر ضہ اور بالخصو ص غیر ملکی قر ضہ در اصل کسی حکومت کی طرف سے جاری شدہ ایک ہنڈی (Bill of Exchage)ہوتی ہے جس میں قر ضے کی رقم مع سود اداکرنے کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے۔
اگر شرح سود 5فیصد ہوتو مقروض حکو مت 20سال کے عر صہ میں اصل زر کے بر ابر صرف سود ہی ادا کر دیتی ہے ، 40سال میں یہ رقم دوگنا اور 60سال میں تین گنا ہو جاتی ہے اس کے باوجود بھی اصل قر ضہ سر پرہی رہتا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ متعلقہ حکو مت اپنے غریب عوام پر ٹیکس اس لیے لگاتی ہے کہ وہ ان غیر ملکی دو لتمندوں سے اپنا حساب کتاب طے کر سکے جن سے اس نے قر ضے لیے ہو تے ہیں ان قر ضو ں کیلئے اپنی رعایا سے فی کس ٹیکس لگا کر ان سے آخر ی سکے بھی نکلوا لیتی ہے حالانکہ اپنی ضرو ریا ت پوری کر نے کیلئے یہی سکے اکٹھے کر کے سود سے بچا جا سکتا تھا۔
جب تک قر ضے مقامی نو عیت کے بہ الفاظ دیگر ملکی رہے اس وقت تک غیر یہو د نے ان قر ضو ں کے ذریعے یہ کیا کہ رو پیہ غر یبوں سے لیکر امیروں کی جیب میں ڈال دیا لیکن جب ہم نے اپنے ایجنٹوں اور کرائے کے ٹٹوؤں کے ذریعہ غیر ملکی قر ضوں کو رواج دیا تو ریاستوں کی تمام دولت سمٹ کر ہماری تجوریوں میں آنا شروع ہوگئی اور تمام غیر یہود ہمیں رعایا کی طرح خراج (سود ) دینے لگے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ غیر یہود حکومتیں اپنے سطح بیںبادشاہوں ، نااہل وزیروں اور کم فہم سر کاری عہد یداروں کی وجہ سے ہماری یہود کی مقروض بن گئیں اور یہ قر ضے اب اداکرنا ان کے بس میں نہیں رہا لیکن یہ سب کچھ یو نہی نہیں ہو گیا اس مقصد کیلئے ہمیں (قوم یہود کو ) آگ اور خون کے دریاؤں میں سے گزرنا پڑا ہے اور ہم نے روپیہ پانی کی طرح بہا کر یہ حالات پیدا کیے ہیں۔
مزید یہود ی پروٹوکول نمبر21میں سودی قر ضوں کا ذکر اسطرح کیا گیا ہے کہ ” ہم نے غیر یہو د حکو متوں کو قر ضے دے کر (جن کی حقیقتاََ ایسی ضرورت نہ تھی )کئی گنا نفع کمایا اور ان کی انتظامیہ کے افسروں کی رشوت خوری اور حکمرانوں کی ضمیر فروشی اور نا اہلی سے فائدہ اٹھا یا ۔۔۔۔ مختلف ریاستیں جب اپنے کسی قر ضے کااعلان کر تی ہیں تو قیمتوں کے تعین کیلئے ان کو 100سے لیکر 1000حصو ں تک تقسیم کیا جاتا ہے اور اولین خریداروں کو کچھ ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے اس سے اگلے روز مصنو عی طر یقوں سے ان کی قیمت میںاضافہ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ظاہر کی جاتی ہے کہ ہر شخص انہیں خریدنے کیلئے دوڑ دھوپ کر رہا ہے ، چند ہی روز میں خزانے کی تجوریاں بھر جاتی ہیں اور ان کے پاس ضرورت سے زیادہ رقم جمع ہو جاتی ہے (آخر یہ رقم وصول کیو ں کی جاتی ہے )مطلو بہ قر ض کی کل رقم سے زائد روپے کی وصولی ہی میں اس سارے ناٹک کا راز مضمر ہے کیو نکہ اس طرح متعلقہ حکومتیں شیخی بگھار سکتی ہیں دیکھئے سر کاری تمسکات پر لو گو ں کو کتنا اعتماد ہے۔
اس ڈرامے کا یہ مضحکہ خیز مر حلہ گزر جانے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ایک ایسا قرضہ لیا گیا ہے جس کی ادائیگی انتہائی تکلیف دہ ہے کیو نکہ پھر اسکا صرف سودادا کرنے کیلئے قرضے لینا پڑتے ہیں جس سے اصل قر ضے میں کمی کی بجائے اضافہ ہو تا ہے جب یہ نیا قر ضہ بھی ختم ہو جاتا ہے تو اس قر ضے کی نہیںبلکہاس کے سود کی ادائیگی کے لیے نئے نئے ٹیکس لگاناپڑجاتے ہیں۔یہ ٹیکس بذات خودقرضے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
محتر م قارئین! آپ نے ملا خطہ کر لیا کہ کسطرح یہودی جو کہ دین اسلام اور نبی رحمت علیہ السلامم کے کھلے دشمن ہیں سودی معیشت کے ذریعے پہلے عوام اور پھر ملکوں کو بر باد کر تے ہیں اگرمیںاورآپ محب رسول ہیں تو پھر آج سے اس بات کا عہد کر یں کہ ملک میں اس سودی معیشت کا خاتمہ کر ینگے عر یانی فحاشی کے بازار بندکرینگے اور اپنے گھروں کو بے حیائی کی گندگی اور نجاست سے پاک کرینگے اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو اور معیشت ، معاشرت ، سیاست عدالتی نظام سمیت ہر چیز میں سیرت رسولۖ کے مطابق ڈھالیں گے اور قدم قدم پریہود ونصاریٰ اور کفار جو کہ ہمارے پیارے محبوب سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہیں کی مکمل مخالفت کرینگے کیو نکہ بنی کریم ۖ نے فرمایا ہے جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے اٹھایا جائیگا۔
Ubaid ullah Latif
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد 0313-6265209 email; ubaidullahlatif@gmail.com