تحریر : انجینئر افتخار چودھری رشتے سارے ہی اچھے ہوتے ہیں لیکن ماں کا رشتہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔جس نے دم نے اس دنیا میں آنا ہے اس دم دے بھی جانا ہے۔یہی کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے بزرگ بڑے رشتے دار باری باری ہمیں چھوڑ گئے۔وقت انہی کی ایدوں سے جڑا گزر رہا ہے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں وہ لوگ جو اپنے بزرگوں کا ذکر کرتے ہیں اور کلام میں یہ جملہ تو کمال کا ہوتا ہے اللہ بخشے والد صاحب کو ماں جی اور پھر ان سے جڑی کوئی اچھی سی یاد سنا دیتے ہیں۔
مائیں بہت اچھی ہوتی ہیں مگر ان میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو روتا بلکتا چھوڑ جاتی ہیں ابھی اس جوان سے بات ہوئی تو اس کی ہچکیاں نہین بند ہو رہی تھیں اپنی رندھی ہوئی آواز میں وہ مجھ سے پرسہ لے رہا تھا۔سوچتا ہوں اسے صبر آ جائے گا سکوں مل جائے گا لیکن اصل مسئلہ تو اس کے پیچھے خزانہ لٹنے کا ہے گھر سے نکلتے ہوئے ماں کی دعائں اب اسے نہیں ملیں گی۔کون دیر تک اس کا منتظر رہے گا اور کون دروازہ کھٹکنے کی آواز پر کان دھرے گا۔مائیں اچھی ہی نہیں بہت اچھی ہوتی ہیں دنیا کی سب سے بہترین ماں اپنی ماں ہوتی ہے اور اس کے بعد دوستوں کی مائیں جو دروازوں میں کھڑے ہو کر بیٹے کے دوستوں کو الوداع کرتی ہیں ہم تو آہستہ آہستہ اس شفقت سے محروم ہوئے جا رہے ہیں۔کم ہی لوگ ہوں گے ہماری عمر کے جو اپنے دوستوں کی مائوں کا پیار لیتے ہوں گے اب تو موت نے اس پیڑی کو شکنجے میں لے لیا ہے۔دوستو!کئی دنوں سے پرسے ماتم ہی لکھ رہا ہوں ملک محی الدین کی ماں فوت ہوئیں ۔یہ بھی کمال کے رشتے ہوتے ہیں یہ سیاست سے بالاتر رشتے ہیں ضیا اللہ شاہ کی ماں ملک محی الدین کی ماں نے جنازوں میں ہمیں اکٹھا کیا۔اللہ رب العزت سب کی ماو ں کو سلامت رکھے جو محروم ہو چکے ہیں ان کی ماوں کو میرا رب جنت کے باغوں کا مکین کرے آمین۔یہ زندگی ایک دوسرے کو سہارہ دینے کا نام ہے۔سچ پوچھیں سیاسی مذہبی فقہی خیالات اپنی جگہ لیکن دکھ تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ٹھنڈیاں چھانواں اور گرم بانہواں ماں دیاں۔ بارش کے ان دنوں میں ماں کا وچھوڑہ تو دکھ دگنے کرتا ہے۔اللہ پاک ان کو صبر دے جن کی مائیں اس دنیا سے چلی گئیں۔آمین اور جن کی ہیں اللہ انہیں صحت والی زندگی دے ۔یہ خزینے تھوڑے دنوں کے ہوتے ہیں جن کے پاس ہیں ان سے استفادہ کریں۔
ہم ان دنوں سپر مارکیٹ کے قریب ایک دفتر میں ہوا کرتے تھے پی ٹی آئی کا یہ سیکرٹیرٹ اس لحاظ سے بڑا یاد گار رہا کہ یہاں بہت سے لوگوں کو ملنے کا موقع ملا اس وقت میڈیا پرسن شہزاد ناقش سیف اللہ نیازی ہی سب کچھ تھے۔میرے پاس ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات کی زمہ داریاں تھیں میسیجز گروپ بنا ہوا تھا کسی بھی پریس کانفرنس کی اطلاع کرنا ہوتی تو ایک گروپ میں اطلاع کر دی جاتی سو کے قریب صحافی باآسانی آ جاتے سب سے ذاتی تعلقات پیدا ہو گئے ایک دوسرے کو نام سے جاننا خیال رکھنا۔ان میں ایک نوجوان صحافی جو منحنی سا جسم تیز روشن آنکھیں سادہ سے لباس میں میری نظروں کا مرکز رہتا جوان میں آگے بھڑنے کی ہمت تھی۔
خان صاحب کی کوئی بھی پریس کانفرنس ہوتی اس کا سوال منفرد ہوتا اور جواب بھی پاتا۔ایک روز کہنے لگا میں خان صاحب سے ایک ذاتی سوال کروں گا۔میرے سمجھانے پر اس نے سوال پیچھے کر دیا۔اس خوبصورت تیز و طرار صحافی کی ماں کی خبر پوشیدہ رہی کل پہلا دن تھا میں نے عہد کیا کہ میں بازار میں وائی فائی آن نہیں کروں گا اور اسی دوران پتہ چلا کہ اس پیارے نوجوان دوست کی ماں کا جنازہ مجھ سے رہ گیا ہے،ندیم قریشی کا نواسہ بھی گزشتہ دنوں اس نا علمی کی وجہ سے جان نہ سکا رفاقت راجہ کے نانا۔کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جنازوں کی اطلاع نہ دی جائے تا کہ دوستوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا ہو۔عدیل سرور مجھے دلی دکھ ہے۔
میں ایک دو روز میں آئوں گا۔دوستوں کی مائیں اپنی ہی مائیں بہنیں ہوتی ہیں ان کا جانادل کا جسم سے باہر آنا برابر ہے دل پھٹتا ہے آنکھ روتی ہے۔ماں تو ان جھڑیوں میں تو بہت یاد آتی ہے۔اللہ پاک آپ کو صبر دے۔یہ دیکھ تا حیات دکھ رہے گا۔مجھے دلی افسوس ہوا ہے نوید افتخار نے ابھی بتایا کہ ابو آپ کو علم ہے عدیل سرور کی ماں اب اس دنیا میں نہیں۔یقین جانئے جان کر دلی دکھ ہوا۔ماں کا بچھڑنا عہد بہار کے خاتمے کا نام ہے۔شکائیتوں کا یہ لیٹر بکس جس میں ہر بیٹا اور بیٹی اپنی اپنی شکائتیں جمع کراتا ہے اور اس ڈاکخانے سے ایک ہی جواب آتا ہے او جانے!کوئی گل نئیں۔عدیل سرور خوشیاں اور غم دوستوں کی امانت ہوتی ہیں آپ کا دکھ ہمارا دکھ ہے۔اللہ آپ کی والدہ کو جنت بخشے۔ہم اس وقت آپ کو ڈھارس ہی بندھا سکتے ہیں ایسی ڈھارس میں اثر کی دعا بھی کرتے ہیں کہ آپ کی ہچکیوں اور آہوں کو قرار آ جائے۔صبر اور قرار آ جانا بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہوتا ہے۔عدیل سرور آپ اکیلے ہی نہیں ہم سب اس صدمے سے گزر چکے ہیں ہمیں احساس ہے کہ یہ دکھ کیسا ہوتا ہے۔جیتے جی ماں سے لڑائیاں ماں سے دکھ سکھ اس کی باتوں سے برا منا جانا یہ بھی زندگی کی سچائی ہے۔اشفاق ظفر کی والدہ فوت ہوئیں تو میں نہ جا سکا اور آپ کے پاس نہیں پہنچا میں حاضری دوں گا اور آپ کا غم بانٹنے کی کوشش کرون گا ۔اللہ پاک صبر جمیل عطا فرمائے اپنے اہل خانہ سے بھی افسوس کیجئے گا۔ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں ڈھارس ہی ہے۔