رشتے مثبت رویوں کے محتاج ہیں

Marriage

Marriage

تحریر : چوہدری غلام غوث
پچھلے دنوں راقم ایک سرکاری سطح کی افطارپارٹی میں شریک تھا افطاری سے پانچ چھ منٹ قبل آواز آئی کہ دُعا کی جائے ایک صاحب جو پینٹ شرٹ اور ٹائی میں ملبوس تھے چہرے پر ہلکی داڑھی تھی اونچی آواز میں دُعا مانگنے لگے باقی سب حضرات سامع بن کر آمین کہتے گئے۔ دُعا مانگنے والے صاحب نے تکرار کے ساتھ دُعا میں یہ الفاظ دُہرائے یا اللہ جن لوگوں کی نوجوان بیٹیاں رشتوں کے انتظار میں گھروں میں بیٹھی ہیں تو عالمِ غیب سے اُن کے لیے اچھے اسباب پیدا فرما دے سب سامعین نے آمین کہا یہ الفاظ میرے حافظے میں اٹک گئے میں نے افطاری اور نماز کی ادائیگی کے بعد ان الفاظ پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے غور و خوض کیا اور نتیجتاً یہ الفاظ مجھے اپنے معاشرے کا بہت بڑا المیہ لگے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیسا وقت آن پہنچا ہے کہ بابوئوں کی افطار پارٹی میں بھی بیٹیوں کے رشتوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو مجھے ایک قومی سطح کے رائٹر کی کتاب میں لکھا وہ واقع یاد آ گیا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ ایک تقریب میں میرے سامنے ایک بچی آ گئی اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ روتی ہوئی مجھ سے مخاطب ہوئی میں نے صورتحال دیکھ کر اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور اُس کی داستان سننے کے لیے اُسے ایک طرف کر لیا میں نے کہا بتاؤ بیٹی بچی نے پلو سے آنکھیں صاف کیں ، روتی اور سسکتی آواز میں بولی سر میں بھیڑ بکری ہوں، گائے بھینس ہوں، میز کُرسی ہوں۔

کپڑے کا سوٹ ہوں یا میں ایک ڈنر سیٹ ہوں ، میں کیا ہوں؟ میں نے جواب دیا، بیٹا! آپ ایک مکمل انسان ہو بچی کی عمر 20/22 سال کے قریب ہو گی وہ کالج میں پڑھتی تھی۔ دُوسری ماؤں کی طرح اُس کی ماں بھی اُس کی شادی کرنا چاہتی تھی پچھلے دنوں اُس کے لیے رشتہ آیا تھا لڑکا امریکہ میں انجینئر تھا لڑکے کے والدین دیہاتی پسِ منظر سے تعلق رکھتے تھے لہذا وہ بہو اور گائے میں خاص فرق نہیں سمجھتے تھے لڑکی کو دیکھنے کے لیے آئے اور لڑکے کی ماں نے بچی کا اس طرح مشاہدہ کیا جیسے دیہاتوں میں جانوروں کا کیا جاتا ہے۔ لڑکے کی ماں نے اُس کے ہاتھ پاؤں دیکھے اس کی نظر ٹیسٹ کی اپنے سامنے اُسے گھما پھرا کر دیکھا اس کا قد اور وزن معلوم کیا ، مُنہ کھلوا کر اُس کے دانت تک چیک کیے اور اُسے سونگھ کر دیکھا ،بچی حساس تھی ان حرکتوں سے اُس کا دل ٹوٹ گیا شاید بچی ساری باتیں برداشت کر جاتی مگر آخر پر لڑکے کی ماں نے ایسی عجیب حرکت کر دی وہ لڑکی کو باہر لے گئی اور دھوپ میں کھڑا کرکے اُس کا رنگ ملاحظہ کرنا شروع کر دیا بچی اس غلط اور فاش حرکت سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ وہاں سے دوڑی اندر آئی چٹخی لگائی اور دروازہ بند کرکے پورا دن خود کو کمرے میں قید رکھا۔

بچی کی آپ بیتی سُن کر مجھے اُس سے اپنی بیٹیوں سے بھی زیادہ ہمدردی ہوئی اُس نے سوال دوبارہ دُہرایا سر میں اب بھی ایک مکمل انسان ہوں اور اُس کی سسکیاں بندھ گئیں۔ اس دوران بچی نے روتے ہوئے صرف یہ الفاظ کہے ” سر اُنہوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا” اس کے بعد بچی سے فرطِ جذبات کی وجہ سے مزید بات نہ ہو سکی میں نے شفقت بھرے لہجے میں اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹا اس لیے کہ وہ لوگ خود ادھورے تھے ان لوگوں نے زندگی کو کبھی جانوروں کی سطح سے اوپر نہیں دیکھا چونکہ گنوار اور جاہل تھے دوسری چیزوں کو اپنے معیار اور نقطہ نظر سے جانچتے تھے ایک گائے دُنیا کی دوسری گائے کو گائے کی نظر سے دیکھے گی، ایک چڑیا پوری کائنات کو چڑیا کی آنکھ سے پرکھے گی، ایک بھیڑیا ساری دُنیا کو خونخوار بھیڑیئے کی نظر سے دیکھے گا چونکہ وہ لوگ انسانوں کے بھیس میں جانور تھے لہذا اُنہوں نے جانوروں کی طرح تمہارا جائزہ لیا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تم خود سوچو اگر کوئی شخص گھاس کی ٹوکری میں ہیرا رکھ کر گدھے کے سامنے رکھ دے اور گدھا اس ہیرے کو زمین پر پھینک دے تو ہیرے کو تو اس سلوک پر ملال نہیں ہونا چاہیئے۔ بچی نے آنسو پونچھے اور ذرا سا مسکرا کر بولی سر اس موضوع کو اپنی کتاب میں جگہ ضرور دیں لڑکوں کے ماں باپ کو ضرور یہ بتائیں کہ لڑکیاں بھی انسان ہوتی ہیں اور اللہ نے ان کو بھی دل، دماغ اور انا دے رکھی ہوتی ہے۔ سر ان کو ضرور سمجھائیں کہ اشرف المخلوقات انسان کو بھیڑ بکریاں نہ بنائیں بلکہ اس کے ساتھ انسانوں والا سلوک کریں۔

قارئین کرام! یہ واقعہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا سلگتا ہوا المیہ ہے جس کی تپش نے معاشرے کو جھُلسا دیا ہے۔ والدین کتنے زیادہ پریشان ہیں اس کی سنگینی کا اندازہ اس طرح کی بابرکت محفلوں میں دُعائیں کروانے سے کیا جا سکتا ہے۔ بچیوں کے والدین آج بھی اس کربناک صورتحال سے دوچار ہیں کہ واجبی شکل کی بچی، جس کے والدین کا معاشی پسِ منظر بھی کمزور ہو، آئے روز لڑکوں کے والدین دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور یہ سلسلہ سالوں تک جاری رہتا ہے دیکھ کر چلے جاتے ہیں اور جواب ندارد، جبکہ کچھ ناں کی صورت میں تو اس صورتحال سے گھروں میں بیٹھی بچیاں نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہیں ۔ راقم کی ذاتی رائے ہے کہ ہمیشہ لڑکی والوں کو پہلے جا کر خود لڑکا دیکھناچاہیئے اور لڑکے والوں کو ہر گز پہلے اپنے گھر نہیں بُلانا چاہیئے تاکہ اگر پہلے راؤنڈ میں اُنہیں لڑکا پسند آ جائے تو تب لڑکے والوں کو اپنے گھر بُلائیں تاکہ لڑکی کو دیکھنے والوں کی منتخب تعداد ہی گھر پر آئے جس سے لڑکیوں کو آئے روز دیکھنے آنے والوں کی بھر مار سے دور رکھ کر نفسیاتی طور پر اُسے احساسِ کمتری سے بچایا جا سکے۔وقت یکسر ایسا بدلا ہے کبھی وہ زمانہ تھا ہمارے بڑے بزرگ کہتے تھے کہ لڑکے کا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے لڑکے والوں کی جوتیاں گھس کر ٹوٹ جاتی تھیں اور کئی ایک تو بیچارے کنوارے ہی جہانِ فانی سے رُخصت ہو جاتے تھے جن کا رشتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے میر عالم اور نائی بھی ناک آؤٹ ہو جاتے تھے۔

اب بیٹیوں والے اتنے پریشان ہیں کہ جوان بیٹیوں کے ماں باپ رات کو سکون کی نیند بھی نہیں سو سکتے۔ اب تو یہ بات انسانی مشاہدے اور شکل و صورت تک محدود نہیں رہی لوگ دولت دیکھتے ہیں، بنک بیلنس، رہائش کی جگہ اور علاقہ، خاندان کے پسِ منظر کی ٹھاٹھ باٹھ اور لین دین جبکہ رقبہ اور زمین کے معاملات تک دیکھے جاتے ہیں۔ہمارا معاشرہ تعلیم کے زیور سے آراستہ پیراستہ لڑکیوں کو ٹھکرا کر ظاہری نمود و نمائش کے زیور سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور اس منفی رجحان نے ہماری بے شمار پڑھی لکھی بچیوں کو رشتوں کے انتظار میں اتنا بوڑھا کر دیا ہے کہ اُن کے سر کے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے۔میں اس صورتحال سے رنجیدہ ہو جاتا ہوں تو اپنے قابلِ اعتماد دوستوں سے شیئر کرتا ہوں اس موضوع پر ایک بڑے سمجھدار اور سنجیدہ شخصیت کے مالک دوست سے بات کی تو اُنہوں نے میری پریشانی اور کرب دیکھ کر مجھے ایک ایسا فارمولا بتایا کہ میرا دل کافی حد تک مطمئن ہو گیا۔دوست بولا چوہدری صاحب افسوس کرنے سے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا ہمیں عملی طور پر بولڈ سٹیپ لینا ہو گا میں نے پوچھا وہ کیسے وہ مُسکرا کر بولا میں نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی تھی ہم نے بھی اس سلسلے میں بیس پچیس رشتے دیکھے مگر ہم نے کسی بچی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی میں نے پوچھا وہ کیسے جناب وہ مسکرایا اور کہا ایک تو ہم براہِ راست رشتہ دیکھنے بچی والوں کے گھر نہیں جاتے تھے کسی دوست نے اگر کوئی رشتہ بتایا تو ہم اُس دوست کے گھر چلے جاتے وہ بہانے سے بچی اور اُس کے والدین کو گھر بُلا لیتا کھُل کر غیر رسمی گفتگو ہوتی اور غیر محسوس طریقے سے ہم بچی کو بھی دیکھ لیتے یا کسی تقریب کا اہتمام کر لیتے اور وہاں بچی اور اُس کے والدین کو مدعو کر کے اُن کی لاعلمی میں بچی کا مشاہدہ کر لیتے تھے اس چالاکی کے دوران صرف ایک دفعہ ایسا موقع آیا کہ ہم کسی کے گھر گئے اور وہاں پر گھر والوں نے یہ تاثر دے دیا کہ لڑکے والے آئے ہیں ہم وہاں جا کر پریشان ہو گئے بچی اور بچے کی جوڑی کا میل ہماری نظر میں مشکل تھا ہم بچی کے والدین کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتے تھے لہذا وہاں میں نے ایک عجیب تکنیک استعمال کی میں نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس سے کہا بیٹی! تم جس گھر میں بھی جاؤ گی وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوں گے اور تم اُن کی آنکھ کا تارا بن جاؤ گی تم مجھے بہت اچھی لگی ہو تم بالکل میری بیٹیوں جیسی ہو لہذا میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا میرا بیٹا تمہارے قابل نہیں ہے اس کا آئی کیو لیول، اس کی تعلیم اور اس کے روّیے تم سے بہت چھوٹے ہیں وہ خوبصورتی میں بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا لہذا میں تمہارے ساتھ یہ ظلم نہیں کر سکتا۔

میرے ان الفاظ نے بچی اور اس کے والدین کی ڈھارس بندھائی وہ آج تک ہمارا برابر احترام کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے اس دوست کی یہ یکتا ادا بہت اچھی لگی وہ تھوڑامتفکر ہوا اور نہایت سنجیدہ ہو کر بولا چوہدری صاحب ” ہم دوسروں کو پسند کرنے کے لیے شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ہمیں لوگوں کو مسترد کرنے کے لیے اس سے پانچ ہزار گنا زیادہ شائستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں تو دُنیا میں سب ہی دلیری سے کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ناں ایک ایسا آرٹ اور ہُنر ہے اور یہ آرٹ اور ہنر ہمارے مُلک کے ہر اُس شخص کو اس وقت سیکھ لینا چاہیے جس وقت نرس یا دائی اس کی گود میں اُس کا بیٹا لا کر ڈالتی ہے اور ذرا سا مسکرا کر بولا ہمیں اس مُلک کے تمام لڑکے والوں کو یہ آرٹ اور یہ ہنر سکھانا ہو گا یہ سب عملی طور پر قدم اُٹھانے سے ممکن ہو گا۔ میرے دل سے ٹھنڈی آہ نکلی میرا دھیان اُس افطاری کی طرف دوبارہ لوٹ گیا اوراللہ سے عاجزانہ عرض کی یا اللہ! ہماری اس افطاری کے ان الفاظ کو مستجاب کر دے جس پر مانگنے والے نے کہا تھا اسے پروردگار! جن گھروں میں نوجوان بیٹیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں اُن کے لیے بہتر اسباب اپنے خزانہء غیب سے پیدا فرما دے اور میں بھرائی ہوئی آواز میں دوبارہ آمین کہہ کر خاموش ہو گیا۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث