میں نے ترکِ تعلقات کا پوچھا اُسے بھی تھا

Relationships

Relationships

میں نے ترکِ تعلقات کا پوچھا اُسے بھی تھا
اُس وقت روٹھنے کا موقع اُسے بھی تھا
یہ کس جگہ پہ آئی بچھڑنے کی اُسے طلب
جب دل نے جذبات نے روکا اُسے بھی تھا
نَم تھی میری نگاہ جو اشکِ ملال سے
اپنے مزاج سے تو شکوہ اُسے بھی تھا
وہ ضبطِ با کمال تھا حد سے پلٹ گیا
یوں وقتِ بے مُہار نے کھینچا اُسے بھی تھا
وہ پی گیا زہرِ ہجر اور بے رُخی کا داغ
ورنہ فراقِ کرب ّ سے مرنا اُسے بھی تھا
مانگا تھا میں نے یا ربّ جو دردِ وفا صنم
شب دن حاجتوں میں مانگا اُسے بھی تھا
جب دور دشتِ بام میں اُتری میری نظر
اُس وقتِ تمناّ نے مانگا اُ سے بھی تھا
بس ذات ّ کی قید نے بُوکھلا دیا اُسے
ورنہ وفا کے نام کا دعوی اُسے بھی تھا
خوفِ جُدائی ساگر غیروں سے تھی اُسے
اپنوں کی چا ہتوں کا دھو کہ اُسے بھی تھا

Shakeel Sagar

Shakeel Sagar

شاعر: محمد شکیل ساگر