سرکاری سطح پر حکومت سندھ نے 23 مارچ سے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے بعد پولیس اور رینجرز نے باقاعدہ گشت شروع کردیا، گو کہ اس سے قبل ہی مارکٹیں بند کرائی جاچکی تھی۔وزیراعلیٰ سندھ نے وفاق کی جانب سے اعلان نہ کئے جانے کے بعد باقاعدہ 22مارچ کو اعلان کیا کہ رات بارہ بجے (23 مارچ)سے سندھ بھر میں سخت لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی غیر مقامی افراد میں افراتفری مچ گئی اور تیزی سے آبائی علاقوں کے لئے واپسی شروع ہوگئی۔یہ خیال قطعاََ غلط ہے کہ سندھ حکومت نے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا،در حقیقت صوبائی حکومت بار بار لاک ڈاؤن کرنے کا عندیہ دے چکی تھی اور عوام جانتے تھے کہ کسی بھی وقت کرفیو یاسخت لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے، کرونا وائرس کے بڑھتی تعداد کو روکنے کے پیش نظر سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو دیگر صوبوں نے بھی قدم بڑھا یا۔اسلام آباد میں بھی لاک ڈاؤن کا مقامی انتظامیہ کی جانب سے اطلاق کردیا گیا۔اب وفاق کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی اس لئے چار و ناچار، فضائی پروازوں کو معطل، ریلوے آپریشن و پبلک ٹرانسپورٹ سروس بھی بندہوگئیں۔سرکاری ملازمین کو رخصت و اسکولوں کو قبل از وقت تعطیلات اور نجی سیکٹر میں صنعتوں میں کام رک گیا۔3 جنوری سے25فروری اور پھر23مارچ تک تین ماہ لائحہ عمل کے لئے یہ بڑی مہلت تھی۔
شہری علاقوں میں لاک ڈاؤن سے حسب توقع معاشی مسائل نے بُری طریقے سے سر اٹھایا اور دیہاڑی دار طبقے کے ساتھ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بُری طرح متاثر ہوئے۔عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ دیہاڑی دار طبقہ دراصل وہ محنت کش ہیں جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کام تلاش کرتے ہیں، حقیقاََ ایسا نہیں ہے، دیہاڑی دار طبقے میں ٹھیکے داری نظام کے تحت لاکھوں ایسے مزدور شامل ہیں، جو کارخانوں، چھوٹی بڑی صنعتوں میں روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ و کارخانوں کی بندش کی وجہ سے ان کو دیہاڑی ملنا بند ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں ٹرانسپورٹ سے وابستہ ٹیکسی، رکشہ، بس، پک اپ ڈرائیور و کنڈیکٹرز بھی براہ راست متاثر ہوئے اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث یہ طبقہ بھی یومیہ اجرت سے محروم ہوگیا۔ آن لائن سروسز کے سسٹم کے تحت کام کرنے والے لاکھوں محنت کش الگ ہیں، جو آن لائن سروسز کے بند ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھ گئے۔اوبر، کریم، بائیکا جیسی ٹرانسپورٹ آن لائن اداروں نے اپنا سسٹم بند کردیا اور کیپٹن مفلوج ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر رائیڈ ملا کرتی تھی جو پابندی کے سبب بند ہوگئی۔ لاک ڈاؤن سے براہ راست متاثر ہونے والوں میں محنت کشوں کا ایک اور بڑا طبقہ بھی زد میں آیا۔ یہ اخباری صنعت سے وابستہ ہاکرز ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اسٹالوں میں اخبارات کی فروخت کرکے رزق حاصل کرتے ہیں، عوام کے گھروں میں مقید ہونے کے باعث اخبارات کی فروخت بھی براہ راست متاثر ہوئی اور ہزاروں خاندان بدترین مالی پریشانی کا شکار ہوگئے۔
گھریلو صنعتوں میں محنت کش خواتین کو ٹھیکے داروں سے کام ملنا بند ہوگیا اور گھروں میں لاکھوں کی تعداد میں محنت کش خواتین معاشی بحران کا شکار ہوگئیں۔ لاک ڈاؤن نے تمام شعبہ حیات کو براہ راست متاثر کیا۔ اس صورتحال میں حکومتوں کی پہلی ترجیح گھروں میں راشن کی فراہمی کو یقینی بنانا، اک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن افسوس ناک اَمر ہے کہ اس جانب مربوط لائحہ عمل میں سست روئی دیکھنے میں آئی۔بڑی مارکیٹ و ہول سیلر میں ذخیرہ کی گئی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی، طلب و رسد کے بڑے فرق سے براہ راست صارفمتاثر ہوا۔ ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے ”ٹائیگر فورس“ کا قیام عمل میں لانے کے اقدامات کے اعلان ہوئے، جس پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آئے، سب سے پہلا اور بڑا اعتراض تو یہ ہے کہ کوئی سماجی و سیاسی تنظیم اپنے نام کے ساتھ”فورس“ جیسے ناموں کا استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ اس سے”پرائیوٹ ملٹری گروپ“ کا تاثر ابھرتا ہے جو کہ آرٹیکل 256کی خلاف ورزی ہے۔
دوم، ملک بھر میں بلدیاتی نظام بحال اور عوام کے منتخب کردہ چیئرمین و کونسلرز فعال ہیں، جن کا عوام سے براہ راست روزانہ کی سطح پر واسطہ پڑتا ہے، لاکھوں کی تعداد میں موجود مقامی بلدیاتی انتظامیہ کو غیر فعال رکھنا مناسب نہیں۔ سوم، پولیو و ہیلتھ ورکرز ٹیم کے پاس بھی ملک بھر کے گھرانو ں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ ان کے توسط سے راشن مستحق گھروں میں دیا جاسکتا تھا، اس طرح باقاعدہ اندارج بھی ہوتا کہ راشن دوبارہ تقسیم نہیں ہوا، اسی طرح ملک بھر میں علاقائی سطح پر زکوۃ کمیٹیاں بھی موجود ہیں،بے نظیر سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام کے تحت بھی مکمل ڈیٹا ان اداروں کے پاس موجود ہیں، ان کی اجتماعی ٹیم بنا ئی جاسکتی تھی۔ گھر گھر راشن پہنچانے کے لئے آن لائن رائیڈر کی خدمات استعمال کی جاسکتی تھی تاکہپریشان حال طبقہ دربدر کی ٹھوکریں نہیں کھاتا اور سفید پوش طبقے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔
اب لاک ڈاؤن کی صورتحال یہ ہے کہ21دن گذر جانے کے بعد عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق کرونا مریضوں کی تعداد سامنے آجانی چاہیے تھی۔حکومت نے ٹیسٹ کئے ہوں یا نہ کئے ہوں، کرونا نے اپنی علامات کو ظاہر کرنا ہی ہے، ابھی تک بڑے پیمانے پر کرونا وائرس کے متاثرین سامنے نہیں آئے، جو بھی مریض سامنے آئے یا آرہے ہیں، وہ بیرون ملک سے آنے والے شہری ہیں، جو 25فروری سے قرنطینہ میں رکھے جاتے ہیں، مقامی طور پر کرونا وائرس کی منتقلی نہ ہونے کے برابر ہے، لاک ڈاؤن میں علامات ظاہر ہونے کا وقفہ مکمل ہوچکا ہے۔ تاہم احتیاطی تدابیروں میں بیرون ملک سے آنے والے افراد پر کڑی نظر رکھنا حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔
پاکستان میں کرونا وائرس پھیلنے کا بنیادی سبب بیرون ملک سے آنے والے افراد کی نگرانی میں کوتاہی تھی۔ ملک بھر سے ان علاقوں سے احتیاطی تدابیر سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے جہاں ابھی تک کرونا وائرس کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا،تاکہ رمضان المبارک میں روزے و تراویح کے اہتمام کے ساتھ باجماعت نماز کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوسکے اور مسلم امہ خشوع وخصوع کے ساتھ اپنی مذہبی عبادات جاری رکھ سکیں۔ضرورت اس اَمر کی ہے کہ متاثرین کو ریلیف دینے کے لئے مناسب حکمت عملی اختیار کی جائے اور مستحقین تک ریلیف پہنچا کر پیشہ ور افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے۔