دین و وطن سے محبت

Pakistani Child

Pakistani Child

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری

کسی بھی معاشرہ کی اساس و بنیاد دواصولوں پر قائم ہوتو اس کو تعمیر و ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔وہ یہ ہیں کہ ان کے مذہبی اقدار کی مضبوطی و پختگی اور اپنے وطن سے والہانہ محبت و عقیدت کہ یہ دونوں چیزیں اس کو معاشرہ کی تاریک راہوں میں بھٹکنے سے مامون رکھتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ موجودہ حالات میں جولوگ بچوں سے متعلق ٹی وی پروگراموں کا جائزہ لیتے ہیںان کے مطابق ٹی وی پر بچوں کی دینی و اخلاقی اور وطنی محبت کا جذبہ بیدار کرنے کی بجائے رقص و سرور اور گانے بجانے کے لایعنی پروگرامات چل رہے ہوتے ہیں جو کسی بھی طرح بچوں کی تربیت کی بہتر ی کے لیے مناسب و اچھا نہیں ہوتا۔ایسی کوئی چیز نہیں پیش کی جاتی کہ انسان کی درست منہج پر تربیت ہوسکے ۔نہ ہی ایسی کوئی پروگرام نشر کیا جاتا ہے کہ جس کو دیکھ کر بچوں میں وطن کی محبت پروان چڑھ سکے کہ ان کو معلو م ہوجائے کہ پاکستان کن مسائل و مشکلات سے گزرکر معرض وجود میں آیا اور کن لوگوں نے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کی۔ اوربانیاں پاکستان اس کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا کیسے تصور پیش نظر رکھتے تھے۔نہ ہی ایسے پروگرام ہیں کہ جن میں اسلام کی ابتداء اور اس کی تبلیغ و دعوت کے مناہج سے واقف کیا جائے کہ معلوم ہوسکے کہ کس طرح برصغیر میں اسلام کا پیغام پہنچا۔اور نہ ہی نبی اکرمۖ کی سیرت کے روشن پہلوئوں سے معاشرے کے بچوں کو آگاہ کرنے کا انتظام موجود ہے یہاں تک کہ بچوں کو اخلاق و آداب سیکھانے سے متعلق کوئی ڈرامے یا فیچر موجود ہیں کہ ان سے بچے رہنمائی حاصل کرکے معاشرے میں کار آمد بن سکیں۔

بچہ تو پاک فطرت پر پیدا ہوتاہے اب یہ امر انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس طرح اس کو درست نہج پر استوار رکھتاہے جیسے حدیث میں وارد ہواہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا ”بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتاہے،والدیین سے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی و مجوسی”اس حدیث سے ظاہر ہوتاہے کہ بچہ پاک و صاف دل کے ساتھ پیدا ہوتاہے یہاں تک کہ بچے کے پاس نہ تو کوئی فکر ہوتی ہے نہ ہی اس کا کوئی دین۔ایسے میں یہ امر بہت خطرناک ہے کہ بچہ مروروقت کے ساتھ بڑا ہوتے ہوئے قرب و جوار کی وجہ سے بہت کچھ سیکھنا شروع کردیتاہے ۔دین اور طبیعت و مزاج کا جھکائو یہ سب وہ اختیار کرتاہے ۔ اس لمحہ ٹی وی چینل پر موجود ڈرامے اور پروگرامات بچوں کی تربیت بنانے یا بگاڑنے میں مرکزی کردار اداکرتے ہیں۔چونکہ بچہ جس چیز کی حقیقت سے معلوم نہ ہواس کی طرف اس کا جلد مائل و متوجہ ہوجانا اچھنبے کی بات نہیں۔استعماری میڈیا کی موجودگی میں بچے کی تربیت دین سے دوری پر ہوتی ہے ،اپنے رسول سے ناواقف ہوتاہے،اس جاہلت و ناواقفیت کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نوجوان بڑی تیزی کے ساتھ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور لادین افکار کو قبول کرلیتے ہیں اور اسی طرح سیکولر نظریات کا لقمہ تر بن جاتاہے حد تو یہ ہوجاتی ہے کہ دین کو بھی ترک کربیٹھتے ہیں یہ سب نظریات بہہت زیادہ خطرناک و افسردہ ہیں۔تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ بچہ کو جو بھی سوچ و فکر بچپن میں مل جائے وہ اس کو تمام عمر تھامے رکھتا ہے۔

بچوں کی تربیت کا انتظام کرنا لازم ہے والدین پر کہ وہ اس کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کریں اور نبی اکرمۖ کی تعلیمات سے واقف کریں۔حدیث میں ہے کہ نبی اکرمۖ فرمایا ہے کہ ”اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور جب دس سال کے ہوں ان کو مار کر نماز پڑھنے کی پابندی کراو”حضورۖ بچوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا کرتے تھے اور ان کو گلی میں کھیلنے کا موقع دیتے تھے۔ نبی اکرمۖ راستے میں گزرتے بچے کو پرندے کے ساتھ کھیلتا دیکھ کر استفسار کرتے کہ کیسا ہے تیرا پرندہ ایک مرتبہ آپۖ کا بچے کے قریب سے گزر ہواتو پوچھا کہ کیسا ہے پرندہ تو اس نے کہا کہ مرگیا تو آپۖ نے بچے کے پاس بیٹھ کر اس کی دلجوئی کی تاکہ اس کا دکھ ختم ہوسکے۔ضروری ہے شعبہ ابلاغ پر کہ وہ بچوں کی دینی تربیت کا لحاظ و پاس رکھے۔دوسری بات یہ ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں نظریہ پاکستان اور تاریخ پاکستان سے واقف کرانے کا کوئی انتظام موجود ہے کہ کیسے یہ ملک معرض وجود میں آیا۔اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ بچوں کے دلوں اپنے ملک سے محبت پیدا ہوسکے ایسا نہ کرنے کا نقصان لامتناہی ہے۔وطن سے محبت کا جذبہ ختم ہونا بہت بڑی خیانت ہے اور اسلامی معاشرہ کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ وطن کی محبت بھی دین کا حصہ ہے کہ نبی اکرمۖ جب مکہ سے ہجرت کررہے تھے تو بہت غمگین تھے۔

اسی طرح ٹی وی چینل بچوں کی اخلاقیات اور اسلامی آاداب کی تعلیم دینے سے بے عاجز ہوچکے ہیں۔ بچوں کو یہ تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ والدین کے خلوت خانہ میں داخل نہ ہوں۔ گھر میں چیخ و پکار اور شوروغل سے اجتناب کریں چونکہ یہ سرگرمیاں کسی بھی مہذب گھرانے کی پہچان کے لیے مناسب افعال و حرکات نہیں ۔بچوں کو کھانے کے آداب سیکھائے جانے کی ضرورت ہے کہ رسول اللہۖ نے بچوں کو دونوں ہاتھوں سے کھانہ کھاتے دیکھ کر اس کو تلقین کی کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھائواور دائیں ہاتھ سے کھانا کھائو۔رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا جو بڑوں کا احترام نہ کرے اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔یہ تمام اسلامی و اخلاقی ادب و آداب اور اچھی عادات کی تلقین کرنے کے پروگرامات ٹی وی چینل پر ناپید ہوچکے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہورہاہے کہ بچوں میں نہ تو دین سے محبت ہے اور نہ ہی وطن سے عقیدت اور نہ ہی ان کے اخلاق حوصلہ افزا ہیں۔جب کے قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں انبیاء اور نیک لوگوں کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں کہ ان سے رہنمائی حاصل کرنا اور بچوں کو صحابہ کرام کی اچھی سیرت سے واقف کرنا ضروری ہے۔جس وقت بچوں کی تربیت کا انتظام کرنا ضروری ہوایسے میں ان کی طرف توجہ نہ کرنا بہت بڑا جرم ہے۔

یہاں ایک بہت بڑی خامی یہ بھی عیاں طور پر موجود ہے کہ بچوں کے کارٹون جتنے میں ٹی وی پر نشر کیے جارہے ہیں ان میں قتل و قتال اور جنگ و جدال اور سختی و تند مزاجی اور بداخلاقی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں جس سے غیر محسوس طریقے سے بچوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرتے وقت شدت و نفرت اور غلظت کا اظہار کرنا چاہیے جبھی ان کو اپنے حقوق بآسانی مل پائیں گے۔جب کہ بچے تو اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہیں اور اللہ کے انعام و ہدیہ کی توقیر و تعظیم کرنا ضروری ہے نہ کہ ان کی تربیت و تعلیم میں کوتاہی رہنے دی جائے اور نہ ہی ان کی تعلیم میں باطل و غلط خطوط پر استوار کیا جائے۔

Dr. khalid

Dr. khalid

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری
khalidfuaad313@gmail.com