تحریر: محمد یاسین صدیق یہ بہت اہم سوال ہے اور اس کا جواب بھی اتنا ہی اہم ہے سوال یہ ہے کہ دین اسلام کی بنیاد کیا ہے؟ یا یہ سوال ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ کون سے احکامات دین اسلام کی بنیاد ہیں ؟ اس سوال کے ساتھ بہت سے سوالات جڑے ہوئے ہیں کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جو اصل بات کو الجھا دیتے ہیں ایسے سوالات کو چھوڑ کر سیدھی بات کرتے ہیں دین اسلام کی بنیاد کلمہ ہے اللہ کو ایک ماننا اور رسول اکرم ۖ کو ان کا رسول اب ہم مسلمان ہوگے اس کے بعد زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق گزارنا ہم پر فرض ہو گیا اور ایسا نہ کرنے کا گناہ ہوگا جس کا انجام جزا یا سزاجنت یا جہنم ہوگا اسلام کے بنیادی ارکان صوم و صلوة، حج، زکوة، جہاد ہیں ان کو کیسے سرانجام دینا ہے کرنا ہے یہاں سے اختلاف شروع ہو جاتے ہیں لیکن ایک بات نظر انداز کر دی جاتی ہے جس پر ہم بات کر رہے ہیں صوم و صلوة، حج، زکوة اور جہاد کا اصل مقصد کیا ہے جو ان کا مقصد ہے وہ ہی اصل دین اسلام ہے اس کی بنیاد ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
جھوٹ سے پرہیز کرنا اور ہمیشہ سچ بولنا۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور ان کو دکھ نہ دینا۔ غیبت سے پرہیز کرنا۔ کسی کو ذلیل نہ کرنا۔ جھوٹا الزام نہ لگانا۔ بد گمانی سے پرہیز کرنا۔ غصہ نہ کرنا۔ دوسروں کے قصور کو معاف کر دینا۔ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا۔ ہر حال میں انصاف کرنا۔ بیوی ،بچوں کے ساتھ رحم والا سلوک کرنا اور ان کو دکھ نہ دینا۔ملاوٹ نہ کرنا،رشوت نہ لینا اور نہ دینا۔ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنا۔ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہنا۔ دوسروں کے لیے وہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں ، مال اللہ کی راہ میں دینا ، سادگی کے ساتھ زندگی گزارنا. اپنی زندگی کے ہر معاملے میں، اللہ کے ہر حکم کی، جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے ، پابندی کرنا اللہ کے رسول کی اطاعت کرنا، تقویٰ اختیار کرنا، تکبر نہ کرنا، خود برائی سے رکنا اور دوسروں کو روکنے کے لیے جہدوجہد (جہاد) کرنا وغیرہ۔ یہ سارے احکامات، انسانی زندگی کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، اور دین اسلام کی بنیاد ہیں یاد رہے۔
Prayer
ان مشکل احکامات کے سامنے نماز، روزہ، حج، زکوة آسان کام ہیں. بلکہ ہمارے ہاں تو اس سے بھی آسان ترین کاموں کو اسلام خیال کیا جاتا ہے مثلا داڑھی رکھنا، مسواک جیب میں رکھنا، سبز، سیاہ عمامہ پہننا،سلوار ٹخنوں سے اونچی رکھنا، کالر والی قمیض نہ پہننا، پینٹ شرٹ کو غیر اسلامی قرار دینا ہے یہ اور ایسے بے شمار کاموں کو ہی اصل اسلام سمجھ لیا گیا ہے (ان پر الگ سے ایک کالم لکھا جائے گا ) اور اب یہ امت ، یہ سارے آسان ترین کام صدیوں سے کر رہی ہے ۔ہم نماز کی بات کرتے ہیں نماز قائم کرنا فرض ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن . . . .اللہ نے قرآن میں اعلان کر دیا ہے ..نمازی کے لیے ہلاکت ہے ” (4:107) اسی سورةماعون میں اسکے گناہ بھی لکھے ہیں جن کی وجہ سے ، نماز ، روزہ ، حج کے باوجود وہ ہلاکت ہے جی ہاں . جو نمازی ، حاجی ، روزہ دار ،دین اسلام کی بنیاد جن پر ہے اگر ان پر عمل نہیں کرتا ان کی پیر وی نہیں کرتا اس کے لیے ہلاکت ہے،صوم وصلوہ ، حج و زکوةاور جہادکی حقیقت کیا ہے ؟ . . ان کی روح کیا ہے ؟. یہ حق چھپانے والے خود شرک اور کفر کرنے والے دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے والے ،دین اسلام کا نام لے کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے ،مسلمانوں کو فرقہ فرقہ کر کے ان کے درمیان نفرت کے بیچ بونے والے ، اور لوگوں کا دیا ہوا چندا کھانے والے ،خود کو سب سے اعلی خیال کرنے والے ،مذہب کا نام لے کر دین کی بجائے دیگر نظام زندگی،آئین،قانون مثلاجمہوریت ،لبرل ازم وغیرہ کو مضبوط کرنے والے ، . جھوٹے دجال نام نہادعلماء کرام ،آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے کہ اس کی حقیقت حقوق العباد ہے اس کی روح دوسرے انسانوں سے پیار ہے اس کی حقیقت پورے کے پورے دین میں داخل ہونے کے ہیں یہ نہیں کہ کچھ باتوں کو مان لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا یہ نہیں کہ فروعی مسائل میں پڑ کر الگ ہو کر نیا فرقہ بنا لینا وغیرہ دین اسلام کی روح اور مقاصد آپ کو صرف اللہ پاک اپنے قرآن میں بتائیں گے۔ان علماء (کی اکثریت )نے تو قرآن کے تراجم میںاپنے اپنے فرقے کا ترجمہ کر کے مسلمانوں کو حقیت سے دور کر نے کی، الجھانے کی کوشش کی ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہسودی کاروبار ہم کرتے ہیں ،اچھا آپ نہیں کرتے ،میں بھی نہیں کرتا ، سوال پیدا ہوتا ہے تو کون کرتا ہے؟ پاکستان میں کون رہتا ہے؟ کون کرتا ہے؟ سود ی کام کرنے والے اللہ کے دشمن ہوتے ہیں ہماری بنک کا سسٹم بھی سودی ہے۔کیا اسے جائز کرنے کے لیے ہمارے رہنماوں (کی اکثریت) نے مجبوری کا بہانہ بنا کر جائز قرار نہیں دے دیا۔اسی طرح جھوٹ ہم بولتے ہیں،اسے مجبوری کانام دے کر ضرورت کا نام دے کر ۔بلکہ بعض اوقات ہم کو اس پر فخر بھی ہوتا ہے۔کہ آج کتنے لوگوں کو ہم نے بے وقوف بنایا ہے دھوکہ دیا ہے۔اس پر فخر کرتے ہیں کہ آج اللہ کی لعنت ہم پر پڑی ہے افسوس صد افسوس۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سبچ بولیں تو دوسرا اعتبار نہیں کرتا ۔بھائی جو اعتبار نہیں کرتا وہ اور جو اعتبار دلانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے وہ یہ دونوں کون ہے ؟کہاں سے آئے ہیں؟ ذرا سوچیں کہ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارے اللہ کے خوف سے دل دہل جائیں۔ سن لو بھائیوں غور سے سن لو۔موت ایک حقیقت ہے۔آخرت ایک حقیقت ہے۔ وہاں حساب ایک حقیقت ہے ۔یہ زندگی ختم ہو رہی ہے۔ہمیں اپنے دل سے دوسرے مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد ختم کرنا ہو گا ۔دین اسلام کی روح کو سمجھنا ہو گا اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی یہ ہی جہاد اکبر ہے۔