پڑھنا نہیں محسوس کرنا ہے یہ نیا علم “” احادیث قدسیہ “” اللہ سبحانہ تعالیٰ کی باتیں مفاہیم مگر پیارے نبی ﷺ کی زبانِ مُبارک سے وہ باتیں جو پڑھ رہے ہیں وہ فرضی نہیں ہیں تخیلاتی نہیں تصوراتی نہیں صرف خاص وقت مقرر ہے جیسے سال بھر پڑھائی کے بعد امتحان دیا جاتا ہے
حدیث قدسی 2 ابو سعید خذری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنے دنیوی حق کے بارے میں اتنا اصرار و تکرار نہیں کرتا تم میں سے کوئی بھی اپنے دینوی حق کے بارے میں اتنا اصرار و تکرار نہیں کرتا جتنا اصرار و تکرار اہلِ ایمان اپنے رب سے اپنے اِن مومن بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو (بعض گناہوں کی وجہ سے ) جہنم میں داخل کئے گئے آپﷺ نے فرمایا اہل ایمان عرض کریں گے اے ہمارے رب !! یہ ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے تو نے انہیں جہنم میں داخل کر دیا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا !! جاؤ اور ان میں سے جنہیں تم پہچانتے ہو انہیں (جہنم ) سے نکال لو تو آپ ﷺ نے فرمایا !! وہ (جنتی) لوگ ان جہنم میں جانے والوں کے پاس آئیں گے اور انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے آگ نے ان میں سے بعض کو نصف پنڈلیوں تک جلا دیا ہوگا اور کچھ کو ٹخنوں تک وہ انہیں (جہنم) سے نکال لائیں گے اور رب تعالیٰ سے کہیں گے اے ہمارے رب !! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا ہم انہیں نکال لائیں ہیں آپﷺ نے فرمایا !! اب اللہ ان سے فرمائے گا جس کے دل میں”” نصف دینار”” وزن کے برابر ایمان ہے انہیں بھی نکال لو یہاں تک کہ فرما دے گا جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہے ( اسے بھی نکال لو )
یہ دنیا “”نصاب “” ہے جس کو اللہ کی کاتب نبی ﷺ کی سنت حدیث کے مطابق پڑھنا تھا کامیابی یقینی ہے اللہ آپ کے ذہنوں کو آج جھنجھوڑ دے کہ یہ مذاق نہیں حقیقت ہے دین سے قرآن سے پرے پرے رہ کر دور دور سے احترام کر کے نجات نہیں ہے جب دور بدل گیا ہم بدل گئے گھر سامان سب بدل گیا تو کیا دین تک ہی رسائی نا ممکن تھی؟ بچت نہیں ہے حساب ہے اور جس کا حساب ہوا وہ پھر کہاں بچا؟ دین خوف نہیں دین ڈر بھی نہیں ہے دین تو بہت پیارا سا زندگی کا مکمل سیٹ اپ ہے البتہ اس کی مخالف سمت چلنے والوں کیلئے یہ وبال جاں درد سر ہے لیکن کسی کے کچھ بھی سوچنے سے اپنی تاویل دینے سے وہ قانون تبدیل نہیں کر سکتا بچت صرف اور صرف دین کو درست طریقے سے سیکھ کر نبیﷺ کی سنت کو زندہ کر کے جینے میں ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ کا خوف بغیر قرآن پڑھے ہر مسلمان کا ایمان ہے نوک زباں پر خوف بھی ہے اور بظاہر عمل بھی زبان رب کی زباں سمجھ نہ آتی ہو تو سنی سنائی باتوں پر خاص طور سے گھر کے بزرگوں کے طریقے ان کے لگائے ہوئے دینی گھر کے دروازے تک ہی رک جاتا ہے وہ کواڑ بند کر دیے جاتے ہیں یوں دین بزرگوں تک روک دیا جاتا ہے جبکہ دیگر زندگی کے ہر رخ کیلئےنئی چوکھٹ لگا دی جاتی ہے جن سے ہر طرح کی نئی جدید رسومات اور سامان آرائش گھر میں داخل ہوتا ہے یوں ہم زمانے میں “”فرسودہ دین “” سے”” آسودہ زندگی گزارتے ہیں یہ مطابقت سراسر غیر دینی اور ناقابل قبول ہے موجودہ دور میں دین کو بہترین اعلیٰ پڑھے لکھے انداز سے سیکھنا آسان بھی ہے اور ضرورت بھی مگر ہماری طبیعتوں میں قول کا فعل کا تضاد ہمیں دین سے دور رکھتا ہے کہ لکھنا کہنا بولنا بھاشن دینا بغیر عمل کے بہت آسان ہے لیکن ان پر عمل کر کے زندگی کو سنوارنا صرف انہی کیلیۓ ہے جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ چن لے دین رسم کو مٹانے آیا تھا بت گرا کے “”معبود “” کی شناخت کیلئے آیا تھا پہلے بت توڑنے والے آج ہوتے تو اشکبار ہوتے ہم نے آج کئی بت بنا لئے کہیں دولت کا کہیں شہرت کا کہیں رشتوں کا کہیں حسب نسب کا کہیں سیاست کا کہیں نمائش کا اتنی پوجا غیر اللہ کی عام ہو گئی کہ معبود برحق کیلئے دل میں جگہ ہی نہیں چھوڑی اس کو آج کا مسلمان رسمی طور پے پورا کر کے مسلمان کا “”ٹیگ “” برقرار رکھتا ہے عبادت ایسا عمل ہے جو دل بدل کر دنیا اور آخرت کو بچا لیتا ہے جو استادوں سے احسن علم سیکھنے کے بعد زندگی میں شامل ہوتا ہے ہم تن آسان ہوگئے ایک وہ تھے جو صحراؤں میں تپتی دھوپ جھلساتی آگ جیسی گرمی میں ہواؤں کے دوش پر اڑتے تھے ان کے سینوں میں ایمان کی ٹھنڈک ایسی کہ ہر وقت اسلام کے پھیلاؤ کیلئے جلتے ریگستانوں میں اِیڑ لگا کر گھوڑوں کی پشت پر سوار آدھی دنیا کے فاتح بنے پیارے نبیﷺ 1400 کے بعد بغیر عملی زندگی کے آج بھی امت کے دل میں دھڑکن کی طرح دھڑک رہے ہیں اک ذرا رک کر سوچیں؟ اگر یہ امت قرآن کے ساتھ اصل درست حدیث کا علم حاصل کر لے یا ترجمہ ہی پڑھ لے تو ان کی محبت کا کیا عالم ہوگا؟ یہ دنیا عقل والوں کا امتحان ہے وہ ارد گرد دیکھ کر پہچان کرتے ہیں کہ نہیں؟ اسرار کے رموز جانتے ہیں کہ نہیں؟ ایک ارب سے اوپر مسلمان اور آج ہماری زبوں حالی؟ یہ حدیث پڑہی تو رونگٹے کھڑے ہو گئے ایک سوچ رک گئی جیسے دماغ میں ہم کس گروہ میں ہوں گے ؟ ہمارے اعمال آدھ جلی پنڈلیوں والے یا ٹخنوں تک جلنے والوں جیسے ہیں؟ یا پھر ہم اپنے رب کی رحمت سے اس کے پیارے مقبول بندوں میں ہیں پڑھنا نہیں محسوس کرنا ہے ہم کس میں ہیں؟ اپنی گندگی کو قالین کے نیچے ڈال کر گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے چلانے والا یہ انسان جتنا شور مچاتا ہے اتنا ہی غلطیوں گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے
ذاتی مفاد کا ڈھول گلے میں ڈال کر دوسروں کی فلاح کا ڈھنڈورا پیٹنے والا یہ کاروباری انسان سمجھ لے دوسروں کی عیب جوئی کی کمائی کھانے والی ہستیاں اس مکھی کی طرح ہیں جو ہمیشہ گندگی پر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیٹھتی ہے اللہ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا اسے صرف اور صرف “”عمل”” چاہیے جس سے جہنم سے نجات ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ یہ پیغام پڑھا جائے سمجھا جائے عمل کیا جائے اور اپنے سچے پاک رب سے جوڑ کر اس امت مرحومہ کو جہنم کی آگ سے بچا کر اہل جنت کے سر سبز و شاداب گھنے باغات میں لے جائے آمین