جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مختلف ممالک کے عوامیت پسند قوم پرست رہنماؤں میں ممکنہ قدر مشترک کیا ہے؟ جرمنی کے ایک معروف ثقافتی محقق کے مطابق ایسے اکثر عالمی رہنماؤں کی سیاست کا ایک مذہبی پہلو بھی ہوتا ہے۔
ثقافتی موضوعات پر اپنی تحقیق کے لیے معروف اور قدیم مصری علوم کے 82 سالہ جرمن ماہر ژان اسمان کے مطابق عوامیت پسند قوم پسندانہ رجحانات رکھنے والی حکومتوں کے سربراہان اکثر اپنی سیاست کو سماجی اکثریت کی روایتی مذہبی سوچ سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی بات ان کی سیاسی مقبولت کی ایک بڑی وجہ بھی بن جاتی ہے۔
ژان اسمان نے جرمن شہر میونسٹر کی یونیورسٹی میں مذہب اور سیاست کے موضوع پر اپنے ایک خصوصی لیکچر میں منگل دو فروری کی شام کہا کہ مذہب اور سیاست کو آپس میں ملا دینے کا یہی رویہ عوامیت پسند حکومتوں کو خود پسندی اور جمہوریت مخالف رویوں کی طرف لے جاتا ہے۔
اس جرمن محقق کے مطابق، ”روسی صدر پوٹن ہوں، ترک صدر ایردوآن، بھارتی وزیر اعظم مودی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، پولینڈ کے دودا، ہنگری کے اوربان یا پھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، یہ تمام سیاست دان اس امر کی بہترین مثالیں ہیں کہ حکمران اپنی سوچوں میں جمہوری رویوں کے مخالف اور خود پسند کیسے بن جاتے ہیں۔‘‘
اپنے اس آن لائن لیکچر میں ژان اسمان نے کہا کہ قوم پسندی بھی مخصوص حالات میں نا صرف مذہب جتنی اہم ہو جاتی ہے بلکہ وہ اپنی اساس میں مذہبی بھی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پسند سیاستدان روایتی مذہبی سوچ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
علوم مصر کے اس جرمن محقق کے بقول، ”قوم پسندانہ نظریات میں تقدیس کی حد تک اہمیت قوم کو دی جاتی ہے۔ قوم پسندی کوئی ایسا ‘متبادل مذہب‘ نہیں ہوتی جسے مذہب کی جگہ پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسا کہ کمیونزم میں کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قوم پسندی مذہب کو اپنا اتحادی بناتے ہوئے اسے اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘
آخری مراحل میں یہ جنگ وسطی یورپ کے ان علاقوں تک محدود ہو گئی جہاں کھانے یا لوٹنے کو کچھ باقی بچا تھا۔ کسانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ وہ اپنے اناج کے خفیہ ذخائر کے بارے میں بتائیں۔ سویڈن کے زر پرست افراد نے عام شہریوں کو تشدد اور دہشت کا نشانہ بنانے کے کئی لرزہ خیز طریقے اختیار کیے۔ ان میں لوگوں کو زبردستی سویڈش ڈرنک‘ پلانا بھی شامل تھا، جس کے اجزا میں پیشاب، پاخانہ اور آلودہ پانی تھا۔
ژان اسمان نے کہا کہ موجودہ دور میں اس رجحان کی مختلف بڑی مثالوں سے ہٹ کر جرمنی میں اس کی بہت بڑی مثال گزشتہ صدی میں نازی دور میں دیکھنے میں آئی تھی، ”تب نیشنل سوشلسٹوں (نازیوں) نے مسیحی اکثریت جرمن عوام کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔‘‘
ژان اسمان نے کہا کہ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ موجودہ دور میں مذہب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
ان کے مطابق، ”مختلف انسانی معاشروں میں سیکولر رجحانات کی مقبولیت کا یہ مطلب نہیں کہ جسے ماضی میں مقدس سمجھا جاتا تھا، وہ ناپید ہو گیا ہے۔ مذہب اب بھی موجود ہے اور وہ کہیں پیش منظر میں ہے، کہیں منظر سے غائب ہو چکا ہے تو کہیں اسے سیاسی حوالے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
ژان اسمان ماضی میں جرمن شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی میں 27 سال تک علوم مصر کے پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے ہیں۔ 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک وہ کونسٹانس یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر کے طور پر مصروف عمل ہیں۔
2018ء میں انہیں اور ان کی اہلیہ الائیڈا کو مشترکہ طور پر جرمن بک انڈسٹری کا معروف امن انعام بھی دیا گیا تھا۔