آثار شناسی سے قوموں کی تہذیب و تمدن ،طرز تعمیر، اور مذہبی عبادت گاہوں کا کھوج لگا کر ہی تاریخ شناسی کی جا سکتی ہے۔ یہ ا ثار کسی بھی ملک کاقو می تاریخی ورثہ ہوتے ہیں۔پاکستان میں سکھ ازم،ہندو دھرم ،عیسائیت، بدھ مت ،جین مذہب اور دیگر مذاہب کے مقدس مقامات موجود ہیں۔ضلع چکوال میں بھی تاریخ کے آثار اور تہذیبوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔جو اس علاقے کی تاریخی اہمیت اُجاگر کرتے ہیں۔امریکہ کے ایک جریدے نے پاکستان کو قابل سیاحت مقامات کی فہرست میں ٢٠٢٠ء کے لیئے نمبر ١ قرار دیا ہے جوکہ پاکستانی سیاحت کے لیئے خوش آئیند ہے۔ اس کے لیئے ملکی سطح پر سیاحوں کے لیئے سہولیات،سیفٹی اور سیکورٹی کاا ہتمام کرنا ہوگا۔
ہم مذہبی سیاحت کی فعالیت کے عہد میں کھڑے ہیں۔حکومت وقت نے اس کا آغاز کرتار پور راہدا ر ی سے کر دیا ہے۔ڈاکٹر رمیش کمار نے متروکہ وقف املاک ادارے کو مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیئے فعال بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور فعالیت کے بعد اسکے ذمہ پہلا ٹاسک سرکاری سطح پر ملک بھر کے غیر مسلم مقدس مقامات کی نشاندہی کی لسٹ تیارکرنا۔اگلا اقدام ان مقامات کی موثر دیکھ بھال کرنا اوربیرون ملک پاکستان کے تمام سفارت خانوں اور سیکورٹی اداروں سے قریبی روابط رکھتے ہوئے اُن تمام غیر ملکی سیاحوں کے لیئے پاکستانی ویزے کا دعوت نامہ جاری کرنا بھی ہے۔جو مذہبی عقیدت کی بناء پر آنا چاہتے ہیں۔
ضلع چکوال بھی مذہبی سیاحت کے ریڈارپر ا رہا ہے۔ضلع چکوال کی تحصیل چوا سیدن شاہ سے چار کلو میٹر دور واقع کٹاس راج تالاب ہندو دیوتا شیو کی محبت کی نشانی کہا جاتا ہے۔ کرتار پور راہداری کے بعد بھارت میں موجود ہندو برادری نے کٹاس راج تک بھی راہداری کا مطالبہ کیا تھا جس پر حکومت نے مثبت جواب دیا تھا۔تحصیل تلہ گنگ بھی قدیم تاریخی ورثے سے منسلک ہے۔ضلع چکوال کے شمال مغربی کونے میں مکھڈ اور کالاباغ کے درمیان دریائے سندھ اور سواں کے سنگھم پر موضع شاہ محمد والی کے عین جنوب میں سطح سمندر سے١١٠٠ فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو دریائے سواں سے ملحقہ نالہ لیٹی کے کنارے کے نزدیک واقع ہے۔
تقریباً ٣ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قدیم مندر ہے جوکالرہ کے نام سے جا ناجاتا ہے۔یہ مندر عدم مرمت و حفاظت کے سبب گر رہا ہے ۔ضلع جہلم گزییٹر ١٨٨٤ء کے مطابق اس مندر کی دیواروں کے قریب وینکا دیوا کا ایک سکہ دریافت ہوا تھاجنرل کننگھم کے مطابق اس حکمران کا عہد حکومت آٹھویں صدی عیسوی کا تھا۔ اس کی تاریخ تعمیر کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔جنرل کننگھم کے مطابق اس کا اسلوب بھی کشمیری ہے اور اس کا سن تعمیر ٨٠٠ء سے لیکر٩٥٠ء تک ہو سکتا ہے۔۔
ڈپٹی کمشنر چکوال لیاقت خان نیازی نے اپنی کتاب(چکوال تاریخ و ثقافت) میں کالرہ کو( سسی دا کالر یا کالرہ) کہا ہے۔لیکن مقامی روایات اور لوک داستانوں میں کہیں بھی اس کا تعلق سسی پنوں سے ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی کالرہ اور موضع کلری میں کوئی نسبت ہے۔ڈاکٹر سٹین کی نظر میں اس مندر کا طرز تعمیر امب کے مندروں سے ملتاجلتا ہے اور غالباً یہ مندر ہندو دیوتا شویا وشنو کے لیئے وقف کیا گیا تھا۔ جنرل کننگھم کوہستان نمک کے جن مندروںکی طرز تعمیر کشمیری بتاتا ہے ڈپٹی کمشنر چکوال لیاقت خان نیازی اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جدید ماہرین تعمیرات اسے ہندو شاہیہ کا نا م دیتے ہیں جوکہ زیادہ مستند دکھائی دیتا ہے۔
ہندو شاہیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بدھ مت کا زوال شروع ہوا تو ساتویں صدی کے وسط میں ہندوں نے بڑے منظم طریقہ پرہندومذہب کی پرچار شروع کردی اور بدھ مت کے آثار بڑی بے دردی سے مٹا دیئے،ہندووں نے مختلف علاقوں میں اپنی راجدھانیاں قائم کر لیں۔گندھارا کے علاقہ میں وقتاً فوقتاً اقتداربدلتا رہا۔دسویں عیسوی میں ہندو شاہیہ نے اس علاقے پر اپنا پرچم لہرایا تو اس کا اقتدار موجودہ صوبہ سرحد اور افغانستان تک دکھائی دینے لگا۔بری کوٹ( سوات) سے جو کتبہ دریافت ہوا اس پر سنسکرت میں تحریر مرقوم ہے جس سے مراد راجہ جے پال ہے۔یہ آخری ہندو خاندان ہے جس نے گندھارا پر حکومت کی تھی۔ اس آخری ہندو حکومت کا چراغ بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوںگل ہوا تھا۔
کوئی ذی ہوش مذہبی سیاحت کے عہد شباب میںاسکے خوبصور ت موقف اور اس کے بدلے قومی خزانے میں آنے والے ڈالروں کے خوشنما اعدادوشمار کو نہیں جھٹلا سکتا۔دیکھنا یہ ہے کہ کالرہ کے وارث کب منظر پہ آکر دوبارہ پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ اور چکوال میں ہندووں کے لئے راہداری کا افتتاح کب تک شرمندہ خواب ہوتا ہے۔ ہمیںمذہبی سیاحت کے اس پہلوکو بھی نظر انداز نہیںکرنا چایئے کہ نیا پاکستان بناتے بناتے کہیں ہم پرانا ہندوستان ہی نہ بنا لیں۔
آخری ہندو حکومت کا چراغ گُل کرنے والے سلطان محمودغزنوی سے معذرت کہ ہم اُس بجھے چراغ کو پھر سے روشن کرنے لگے ہیں۔