تحریر : انعام الحق گذشتہ دنوں ایک دوست کی جانب سے یہ پیغام ملا کہ آپ اکثر پاکستان کے علمائ کے خلاف لکھتے ہیں، کبھی انکے حق میں بھی لکھ دیا کریں۔ میں نے اُن سے پوچھا آپ بتائیں وہ اچھی باتیں جو میں اُن کے بارے میں لکھ سکوں؟ایسے لوگ جنہیں معاشرے میں مثالی قردار کے طور پر ہونا چاہئے.اُن کے واقعات، کہانیاں، گمراہیاں، لڑائیاں، جھوٹ اور ظلم کی داستانیں سن کر اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ اُن کے حق میں لکھنا چاہیں تو بھی قلم نہیں چلتا۔وہ دن اور آج کا دن ابھی تک اُن محترم دوست صاحب کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں کہ ہم مجموعی طور پر ایک متحد قوم نہیں ہیں۔ بڑے بڑے لکھاری، تجزیہ نگار اور پڑھے لکھے بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی ایک ہجوم تو ہوسکتے ہیں ایک قوم نہیں۔اس کی وجہ وہ غلامی ہے جو ہمارے بزرگوں نے سہی ہے۔صرف پاکستانی نہیں بلکہ ہندوستانی بھی ہجوم ہیں قوم نہیں۔اگر اُنکا میڈیا پاکستانی میڈیا کی طرح آزاداور منہ پھٹ ہو تو دُنیا دیکھے گی کہ کس طرح ہندوستان مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ خیر ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔ جس طرح ایک غریب کے پاس دولت آجائے تو اُس کے دل میں فوری خواہشات جنم لیتی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ تمام خواہشات کو پورا کر لے۔کُچھ ایسا حال ہم پاکستانیوں کا بھی ہے۔
ہماری خواہشات دن بدن پڑھتی جا رہی ہیں، حسداور حرص ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس اُس کی خواہش کے مطابق ہر چیز ہو۔ اُسے پانے کے لئے جو بھی کرنا پڑے وہ کر گزرے بس اُسے حاصل کر لے اور اپنی حرص اور حسد پوری کر لے۔یہ غلام قوموں کی وہ نشانی ہے جس سے وہ آسانی پہچانے جاتے ہیں۔غلام تو کل بھی تھے اور آج بھی ہیں فرق اتنا ہے کہ کل ہم اُن کے غلام تھے جن کے ملک میں داخل ہونے کوآج ترستے ہیں اور آج ہم اُن کے غلام ہیں جنہیں ہم ملک میں داخل ہونے نہیں دینا چاہتے۔
Desires
بے شمار خواہشات کو پورا کرنے کے لئے پاکستانی انتہائی اقدام کو پہنچ جاتے ہیں ۔وہ صرف اور صرف کم علمی اور دینی تعلیم کی کمی کی وجہ سے ایسے اقدام کرتے ہیں۔یہاں یہ سوچنا چاہئے کہ ہمیں دین سیکھانے والے کون ہیں؟وہ جو مدرسوں میں بچوں کو دہشت گردی سیکھاتے ہیں یا وہ جو دن میں زنا کو بُرا کہتے ہیں اور راتیں کوٹھوں پر گزارتیں ہیں؟ایسی بے شمار مثالیں ہیں جو میڈیا متعدد بار سامنے لا چکا ہے۔پھر بھی اگر آپ یہ اُمید رکھیں کہ علمائ کے حق میں ہی لکھنا چاہئے تو آپ منافق ہیں لکھنے والے کو منافق بنانے کی خواہش چھوڑ دیں۔
زندگی میں ہر انسان کیلئے دو ہی راستے ہوتے ہیں،ایک اچھاراستہ اور دوسرابُرا راستہ۔ایک وقت میں ایک انسان ایک راستہ پر چل سکتا ہے دونوں پر چلنے والا منافق ہوتا ہے۔آپ آج سے ہی اپنے ارد گرد نظر دوڑانا شروع کر دیں آپکو منافقوں کی پوری فوج نظر آئے گی۔جو مسجد میں قدم رکھتے ہوئے تو مومن کہلاتے ہیں جبکہ راتوں میں بازارِ حُسن والے اُنہیں کنجر کہتے ہیں۔ٹی وی پر آپ رقاصائوں کے انٹرویو دیکھ لیں بڑے فخر کے ساتھ کہتی ہیں کہ اس کام میں اللہ نے بہت عزت دی ہے۔
ڈراموں ،فلموں اور سٹیج شو میں کام کرنے والا ہر فنکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عزت کی وجہ سے مشہور ہے۔حالانکہ دین کسی بھی رنگ میں کسی بھی قسم کے کنجر خانے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔جبکہ ہم دین سیکھانے والوں کو دیکھ لیں تو بیشمار ایسے ہیں جو اداکاروںکے ساتھ تصویر بنوانے کو فخر سمجھتے ہیں اور ویڈیوز میں بھی نظر آتی رہتی ہیں ۔لہٰذا پہلے علمائ کوسیدھا راستہ اپنانا ہوگا کیونکہ جب تک ہمارے علمائ خواہشات پر قابو نہ پا لیں وہ عوام کو خواہشات پر قابوپانے کی تعلیم ہرگز نہیں دے سکتے۔