تحریر : بدر سرحدی مفتی، صاحب جنہیں مذاہب باطل کہہ رہے ہیں انہیں سے سورہ العمران میں مکالمہ کی دی گئی، آج کیوں عوام کو…. ١١ ،فروری ٢٠١٥، ہفت روزہ یو کے ٹائمز لندن کی اشاعت میں مولانا مفتی منیب الرحمن کا مضمون عنوان ”مذاہب باطلہ کے ساتھ تشّبہ ”شائع ہوأ،مضمون خاصہ طویل تھا جو بے شمار احاد یث سے مزئین تھا اُن کے لئے تو احادیث بھی قرآن مجید کا ہی حصہ ہیں مگر یاد رہے غیر مسلم کے کیا معنی ہیں ،کہ ہر وہ شخص جو منکرِ اسلام ہے اس انکار میں سب کچھ ہی آ جاتا ہے لکھتے ہیں ”حضرت جابر بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ،دین میں کسی بات کی بابت اہل کتاب سے نہ پوچھو کیوں کہ وہ تمہیں ہر گز ہدایت نہیں دیں گے،جب کہ وہ خود گمراہ ہو چکے ہیں یا تو تم باطل کی تصدیق کرو گے یا حق کو جھٹلاؤ گے اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو اُن پر بھی میری اتباع لازم ہوتی (مسند احمد١٤٦٣١)مشرکین کی مخالفت کرو ۔اور جس کسی نے مِلت باطلہ سے مشاہبت کی اور اِن کا شمار انہی سے ہو گا، (١) اہل کتاب سے نہ پوچھو،سو اِس کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ وہاں کیا فرمایا گیا ہے …لیکن اس سے پہلے ،برطانیہ میں سُنی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہاؤس آف کامن میں عید میلاد النبی کے سلسلہ میں تقریب منعقد ہوئی ،تفصیل میں پہلے ہی لکھا ہے کہ برطانیہ میں ایسے علماہ موجود ہیں جو دہشت گردی کی کھلے عام مذمت کرتے ہیں ( یہ بھی وقت کی ضرورت ہے ورنہ……) اس تقریب کی روئداد ٥٧، اہم شخصیات کی تصاویر کے ساتھ صفحہ ٥ ،پر ٤،کالمی سرخی ،”مذاہب میں ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے ” اسی موضوع پر مقرر ین نے اجلاس سے خطاب کیا ،پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس ،برٹش مسلم فورم کے مرکزی راہنما علامہ شاہد رضا نعیمی ،جمیعت تبلیغ اسلام کے مرکزی راہنما صاحبزادہ سید محمد احسن شاہ نوشاہی ، جنہوں نے خطاب کیا …. پاکستانی ہائی کمشنر سیّد ابن عباس نے کہا کہ نبیء کریم کی تعلیمات ،امن ،محبت،رواداری،اور برداشت کا درس دیتی ہے،برٹش مسلم فورم کے مرکزی راہنما علامہ شاہد رضا نعیمی نے کہا اسلام امن و سلامتی کا علمبردار دین ہے ایسے بیانات ہر روز سُنتے اور پڑھتے ہیں مگر نہ تو کہیں امن ،نہ محبت اور نہ ہی رواداری دکھائی دیتی ہے ،اگر مذہب سے،محبت،رواداری،برداشت ،اورامن نکال دیا جائے تو باقی عبادت رہ جاتی ہے اگر اللہ تبارک و تعلےٰ کو عبادت ہی درکار تھی تو پھر آدم ہی کی کیا ضرورت تھی کروڑ وں فرشتگان ہمہ وقت عبادت میں مشغول نہیں رہتے ……،، آج دنیا میں خصوصاپاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اورمکالمہ پر زور دیا جا رہا ہے ،
سورہ یونس جو مکہ میں نازل ہوئی،آیت ٩٤ میں ارشاد ہے ترجمہ شاہ افیع الدین محدث دہلوی ”پس اگر ہو تو بیچ شک کے اس چیز سے کہ نازل کی ہم نے طرف تیری پس سوال کر اُن لوگوں سے کہ پڑھتے ہیں کتاب پہلے تجھ سے تحقیق آیا ہے تیرے پاس حق پروردگار تیرے سے پس مت ہو شک لانے والوں سے”قرآن کی اِس آیت میں دو باتیں غور طلب ہیں … جبکہ وہ خود گمراہ ہو چکے ہیں یا تو تم باطل کی تصدیق کروگے یا حق کو جھٹلاؤ گے”اِس کے لئے بھی قرآن ہی کی طرف رجوع کریں گے سورہ آلعمران،آیت (٣)ترجمہ شاہ رفیع الدین محدّث دہلوی….اتاری اوپر تیرے کتاب ساتھ حق کے کہ سچا کرنے والی واسطے اُس چیز کے کہ آگے اُس کے ہے اتاری توریت اور انجیل…سورہ المائدہ آیت ٤٦،ترجمہ،اور پچھاڑی بھیجا ہم نے اوپر پیروں کے کہ عیسیٰ بیٹے مریم کے کو سچا کرنے والا اُس چیز کو کہ آگے اُس کے تھی توریت سے اور دی ہم نے اُس کو انجیل بیچ اُس کے ہدایت اور روشنی اور سچا کرنے والی اُس چیز کو کہ آگے اُس کے ہے توریت اور ہدائت اور نصیحت واسطے پرہیز گاروںکے ….آیت ٤٦،،اور اتاری ہم نے طرف تیری کتاب ساتھ حق کے کہ سچا کرنے والی اُس چیز کو کہ آگے اُس کے ہے کتاب سے ……،،کم از کم میرے لئے اِن آیاتِ مقدسہ میں کوئی ابہام نہیں ، نیز ایسی ہی بے شمار آیات ہیں مگر دو تین آیات پر ہی اکتفا کیا ہے ….
جنہیں مولانا نے مذاہب باطلہ کہا ہے اُن کے بارے میں قرآن میں کیا فرمایا گیا ہے ،سورہ،العمران،آیت ٦٤ ،کہہ اے اہل کتاب آؤ طرف ایک بات کے کہ برابر ہے درمیان ہمارے اور درمیان تمہارے یہ کہ نہ عبادت کریں ہم مگر اللہ کو اور نہ شریک لاویں ساتھ اُس کے کچھ اور نہ پکڑے بعض ہمارا بعض کو پروردگار سوائے اللہ کے پس اگر پھر جاویں پس کہو گواہ رہو تُم ساتھ اس کے کہ ہم فرما بردار ہیں …،، پہلی مرتبہ مذہبی ہم آہنگی ، یا مذاہب میں مکالمہ کا فرمان ہے ،اور یہ وقت کی ضرورت تھی کہ کفار مکہ پوری قوت سے حضورۖ کی مخالفت کر رہے تھے چنانچہ مشیت ایزدی یہی تھی کہ اہل الکتاب سے ڈئیلاگ کئے جائیں ،مذہبی ہم آہنگی یا مکالمہ تب بھی ضرورت تھی اور آج بھی ….! یہاں جن مذاہب کو مولانا نے باطل کہا ہے ،ان سے مکی سورتوں میں مکالمہ کرنے اور صبر کی تلقین ہے، اور دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ،مولانا کسی وقت اِس پر بھی روشنی ڈالیں کے اِس مصلحت کے پس پردہ کیا عوامل تھے …
Muslims
جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ،ظلم حد سے بڑھ گیا تو مشیعت ایزدی کے فرمان پر بصیرت نبوت کا فیصلہ یہ ہوأکہ مسلمان مکہ سے ہجرت کر جائیں (ابن حشام ٣٢٣…)حضور نے فرمایا ،اگر تم لوگ حبشہ کو نکل جاؤ تو اچھا ہے وہاں کے نصرانی بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا وہ سر زمین ِ صدق ہے یہاں تک جس تنگی حیات میں تم لوگ ہو اللہ اس میں صراحی پیدا کرے گا …چنانچہ مہاجرین کی پہلی جماعت ١١، مرد اور چار خواتین پر مشتمل حضرت عثمان بن عفان کی قیاد میں حبشہ روانہ ہوئی ….مہاجرین کی دوسری جماعت جس میں ٨٣،مرد اور ١٨، خواتین پر مشتمل حضرت جعفر طیار کی قیادت میں رازداری سے حبشہ روانہ ہوئی،مگر جب کفار مکہ کو علم ہوأ تو بہت سٹپٹائے اور ایک سفارت مع تحائف کے حبشہ گئی نجاشی کے دربار میں مسلمانوں پر الزام لگاتے ہوئے شاہ حبشہ سے کہا یہ لوگ اپکے دین کے بھی خلاف ہیں اور ہمارے بھی انہیں ہمارے حوالہ کر دیا جائے ، شاہ حبشہ نے مسلمانوں سے دریافت کیا تو حضرت جعفر نے سورہ مریم سے چند آیات تلاوت کیں ..تب نجاشی نے اہل مکہ کو کہا اپنے تحائف لئے واپس جائیں یہ لوگ یہیں رہیں گے اور اپنی مرضی سے جب چاہیں جائیں گے …. ْ کہ ابھی تک مسیحی اہل کتاب تھے …اور جب مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے اور مکہ فتح ہو گیا تو پھر نصاریٰ بھی اہل کفر کی صف میں چلے گئے کہ مدنی سورتوں میں ان احکام کو منسوخ کر دیا….!
ابھی تک قرآن کا نزول مکمل نہیں ہوأ تھا ،الکتاب پڑھنے والے اُس وقت دو گروہ تھے ایک تو نصاریٰ تھے اور دوسرے یہودی ،ان کے پاس توریت تھی اسی صدی میں ظہور اسلام سے قبل توریت کو عبرانی سے عربی اور انجیل کا یونانی سے عربی میں ترجمہ ہو أ ،یونانی انگلیون کو عربی میں انجیل کہا گیا ، کہ عرب قبائل میں یہ کتب پڑھی جاتی تھی جسے بے شمار مقامات پر الکتاب کہا گیا ہے …..! ظہور اسلام سے قبل جب ایران کے ساسانی شہنشاہوں نے ایذارسانیا ں شروع کیں تو ایران کے مسیحی عرب میں نجران، یمن، حضر موت،اور عمان میں آبسے ،عرب مورخین کے مطابق عرب قبائل قضاء ،سبلج ، اور عیسان مسیحی تھے ،حیرہ اور یمن کے ملوک بھی مسیحی تھے ،علامہ شبلی مرحوم لکھتے ہیں عیسائی روسائے عرب میں
سب سے زیادہ طاقتور قبیلہ غسان تھا جو رومیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی تھا ٥١٢ ء میں حرثہ کا بادشاہ المنذر عیسائی ہو گیا تھا ،اِن کے علاوہ بھی ے شمار قبائل تاریخ میں نظر آتے ہیں ،لیکن ٧ویں صدی کے اختتام تک پورے عرب و مشرق وسطےٰ میں ایک بھی غیر مسلم نہ رہا ،،سو خلفائے راشدین کے عہد ہی میں عرب دیگر مذاہب سے پاک ہو چکا تھا ….آج زمانہ اور ہے ،دوسرے الہامی مذاہب کو مذاہب باطلہ کہنے سے پہلے سوچیں ،یہ ساتویں صدی نہیں ٢١ ویں صدی ہے ….مولانا مفتی منیب الرحمن پاکستان میں ملت کو عید الفطر ایک ہی دن منانے پر قائل نہیں کر سکے ،ایک صوبے میں کبھی دو اور کبھی تین عیدین ہوتی ہیں …..!!