جس طرح کسی علم کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بنیادی فلسفہ سے واقفیت ہو ٹھیک اسی طرح مذاہب جن عبادات و اعمال کا تقاضا کرتے ہیں، ان کے بنیادی فلسفہ سے واقفیت بھی لازم ہے۔ فائدہ یہ ہو گا کہ عمل میں تشنگی نہیں رہے گی اور نتائج کے اعتبا سے بھی فرد کی ذات اور ملت میں وہ نتائج نمودار ہو جائیں گے جو مطلوب ہیں۔ اب اگر کوئی عمل عبادت کے دائرہ میں بھی آتا ہو اور خشوع و خضوع کے ساتھ انجام بھی دیا جائے اس کے باوجود نتائج ظاہر نہ ہوتے ہوں تو معنی یہی ہوں گے کہ آیا فرد یا ملت نے اس کو بنا سوچے سمجھے ہی انجام دیا ہے یا واقعی وہ لایعنی عمل ہے جس کو عبادت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔
آج مختلف مذاہب کے افراد بے شمار اعمال عبادات کے نام پر انجام دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ اعمال جن کو “عبادت” کہا جا رہا ہے کیا واقعی فرد میں مثبت تبدیلی لار ہے ہیں یا لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ یا پھر بس چند اعمال ہیں جو کبھی شائستہ اور کبھی ناشائستہ انداز میں انجام دیے جاتے ہیں اور نتیجہ کے اعتبار سے وقت گزاری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف اسلام نے جن اعمال کو عبادات کا درجہ دیا ہے اس کے ذریعہ فرد واحد اور اجتماعیت دونوں ہی اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے کامیابی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ چونکہ ان عبادات کو انجام دیتے ہوئے تہذیب و شائستگی کا مکمل اظہار ہوتا ہے نیز کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا جس سے یہ کہا جا سکے کہ اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے کہ جس میں نہ فردکی شخصیت نکھرتی ہے اور نہ ہی معاشرہ مثبت تبدیلیوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہی معاملہ اس عظیم عبادت کا ہے جسے “حج” کہا جاتا ہے۔
عشق و محبت کا عظیم نظارہ : بندہ مومن جب حج کا ارادہ کرتا ہے اسی وقت سے ایک تڑپ اس کو اندر سے بے چین کیے رہتی ہے۔ عظیم عبادت کو انجام دینے کی تڑپ، اللہ کے گھر کی زیار ت کی تڑپ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مبارک میں قدم رکھنے کی تڑپ، ابراہیم خلیل علیہ السلام کے بنائے گھر کو دیکھنے کی تڑپ، ان وادیوں، سحرائوں اور پہاڑوں کے مشاہدے کی تڑپ جہاں ایک عظیم واقعہ رونما ہوا تھا اور بندہ مومن کا یہ عشق و محبت اس کو بے چین کیے رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام کو نہ پہنچ جائے حدود حرم میں داخل ہوتا ہے اور بہت ہی خوبصورت اور قیمتی کپڑے اتار پھنکتا ہے اور دو اَن سلی چادریں جو کفن سے مشابہ ہیں، زیب تن کرتا ہے۔ پھر جیسے ہی وہ اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے آنکھیں اشک بار ہو اٹھتی ہیں، خانہ خدا میں قدم رکھتے ہی بندہ مومن پتھروں سے بنی ایک عمارت کے گرد چکر لگانا شروع کر دیتا ہے۔ایک گوشے میں ایک پتھر نسب دیکھتا ہے جس کی جانب وہ دیوانہ وار لپکتا ہے اور بے اختیار چومنے لگتا ہے۔
صفا و مروہ کے درمیان دو پہاڑ کہ جن کے درمیان وہ دوڑتا ہے۔ پھر وہ اپنے سر کے بال جن کو اس نے اپنی زیب و زینت سمجھ کر بنا سنوار کر رکھتا تھا انہیں استرے سے منڈوا دیتا ہے۔ پھر منا کی طرف بھاگتا، خیمے گاڑتا اور عرفات میں شام تک قیام کرتا ہے۔ پتھر کے ستون کو کنکریاں مارتا اور شیطان مردور پر لعنتیں بھیجتا ہے اور آخر میں اللہ کی خوشنودی اور جذبۂ للہیت سے سرشار ہو کر جانور کی قربانی کرتا ہے اور اس سب کے درمیان اس کی زبان پر جو کلمات رواں ہوتے ہیں وہ بس یہی کہ :”لبیک الھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و المک لا شریک لک”۔ ایسے موقع پر دنیاوی فلسفیوں میں سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ رقت و گریہ زاری، دنیا کی بے ثباتی اور یہ دیوانہ وار فنا فی الرض کی کیفیت کیوں تم پر طاری ہو گئی ہے؟ تو اس کے پاس عقلی طور پر جواب نہ بن پڑے گا۔ وہ بے ساختگی کے ساتھ اگر کچھ کہے گا بھی، تو بس یہی کہ مجھے کچھ پتہ نہیں۔
یہ میرے محبوب کا وہ گھر ہے جسے آج میں جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔یہ وہی گھر اور مقام ہے جس کی آرزو ساری زندگی دل میں پرورش پاتی رہی اور زندگی کے یہ لمحات عمر بھر کی تمنا کا حاصل ہیں۔ جن کے لیے میں نے ہزاروں میل کی مسافت طے کی اور سفر کی صعوبتیں و تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ یہاں عقل نہیں بلکہ عشق و محبت ہے جس نے یہ سب مجھے کرنے پر اکسایا اور میں نے بالکل ویسا ہی کیا جیسے میرے محبوب کی چاہت تھی۔ یہاں آکر میں رویا گڑ گڑایا، خطائوں سے معافی طلب کی اور اس عبادت عظیم کو انجام دینے کی ہر ممکن سعی و جہد کی جو میرے ربِ کریم کو پسند ہے۔
Hajj
مقاصد ِ حج: حج کے ذریعے امتِ مسلمہ کی ہر نسل اپنے اسلاف کے کارناموں اور ان کے تاریخی ورثے سے روشناس ہوتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کس طرح ابرہیم نے اپنے ربِ رحیم کے اشارے پر اپنی بیوی اور بچے کو ایک بنجر وادی میں بسایا، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی سعی کی، کعبہ تعمیر کیا، لوگوں کو حج کی جانب بلایا ،اور مکہ کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی دعا کی۔ اسی طرح مکے کی پہاڑیاں اللہ کے آخری نبی محمد اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کی جدوجہد، قربانیوں، ان پر ہونے والے مظالم اور آخر میں ان کی ہجرت کی داستان بیان کرتی ہیں۔ ساتھ ہی حج کا مقصد تقوٰی کا حصول، دنیا سے بے انتہا لگائو میں کمی اور روحانیت کو فروغ دینا ہے۔ بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دنیا کی زینت کو خود پر حرام کرتا ہے۔ وہ اپنا میل کچیل دور نہیں کرتا، ناخن نہیں کاٹتا، جائز جنسی امور سے گریز کرتا، مختصر لباس زیب تن کرتا، برہنہ پا اور ننگے سر ہو کر روحانی مدارج طے کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کا تقرب اس کو حاصل ہو جائے۔ حج ان عبادات کا مجموعہ ہے جس میں نماز، انفاق، ہجرت، بھوک و پیاس، مجاہدہ، جہاد، زہد و درویشی ،قربانی، صبرو شکر سب شامل ہیں۔ فریضہ حج ان تمام عبادات کو انجام دینے کا موقع کا فراہم کرتا ہے جو انسان کی روحانی بیماریوں کے لئے اکسیر کا کام کرتا ہے۔
اسی طرح تکمیل ذات اور تطہیر فکر و عمل بھی حج کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کو روحانی تطہیر کا موقع فراہم ہوتا ہے تا کہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی اصل فطرت پر لوٹ آئے۔ حج مومن کو اس کے ازلی دشمن ابلیس کے خلاف تمثیلی جنگ میں برسرِ پیکار کرتا ہے۔ وہ ابلیس جس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اسے حقیر سمجھا ، جنت سے نکلوایا اور پھر دنیا میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تاکہ اسے اپنے رب کے سامنے نااہل اور ناکام ثابت کردے۔ حج اسی ازلی دشمن کی شناخت کراتا، اسکے چیلنج کی یاد دلاتا اور اس کو سنگسار کر کے طاغوتی رغبات کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔
Hajj Baitullah
رمی’ اعلان برات: اور شبِ مزدلفہ! وہ شب ہے جبکہ دشمن سے مڈبھیڑ ہونے میں بس اب ایک رات باقی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ عرفات کے میدان سے اگلے مورچے پر جانا جہاں اوپر کھلا آسمان ہے، نیچے کوئی بستر نہیں۔ مگر کیا ہو ا؟ چند لمحوں کی بات ہے پھر یہ شیطان اور نفس کے خلاف معرکہ آرائی ختم ہوگی اور یہ مجاہد خدا کے انعام سے سر فراز ہوگا۔ صبح ہوئی اور تاریکی ختم ہو گئی۔ اسی طرح قیامت کی صبح بھی ہوگی اور ظلم و عدوان کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔ آج گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ آج وہ دشمن سامنے ہے جس نے ہمارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا، ان سے پوشاکیں چھین لیں، ہابیل و قابیل کو لڑوا دیا اور پھر کثیر خلقت کو شرک، زنا اور قتل پر اکسا کر خدا کی راہ سے برگشتہ کر دیا۔ آج یہ حاجی اسی راہ پر ہیں جہاں چار ہزار سال قبل ابراہیم تھے۔ جب انہوں نے اسماعیل کو لیا اور انھیں قربان کرنے کے لئے آگے بڑھے۔ اسی اثنا میں ابلیس آدھمکا اور ابراہیم کے کان میں سرگوشی کی کہ پاگل ہوئے ہو؟ کیا اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروگے؟ ابراہیم نے اس پر سنگباری کی اور دھتکار دیا۔ آج اس بندہ ٔ خدا کو بھی شیطانی وسوسوں سے مغلوب نہیں ہوناہے بلکہ اسے سنگسار کرکے طاغوت کا انکار کرنا ہے۔ کنکریاں مار کر آج اعلان برات کیا جائے گا۔ پھر جب کنکریاں مار دی گئیں تو تلبیہ ختم ہوا کیونکہ شیطان کی ناک رگڑی جاچکی اور رحمان کا بول بالا ہوا لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ وہ لوگ جوفی الوقت اِس رکن کو انجام نہیں دے رہے ہیں، یا وہ لوگ جنھوں نے کبھی اس رکن کو انجام دیا تھا، یا وہ لوگ جو اس رکن کو انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، یا وہ لوگ جو انجام دینے کی اسطاعت ہی نہیں رکھتے۔ ایسے تمام لوگ فی الوقت کیا کریں؟ کیا وہ طاغوت کا انکار نہیں کریں گے؟ کیا وہ شیطانی وسوسوں سے اسی طرح مغلوب ہوتے رہیں گے جیسا کہ ہو رہے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔
ہم سب کو جو مخصوص رکن کو انجام دے رہے ہیں اور نہیں دے رہے ہیں، تمام ہی مسلمان طاغوتی نظام، افکار و خیالات اور فکر و نظر کا اپنے رویہ سے انکار کریں گے لیکن کیا ایسا ہو رہا ہے؟ موجودہ حالات میں یہ سوال بہت اہم بن جاتا ہے۔ عہد حاضر میں مسلمانوں کی صورتحال تشویش ناک ہے، چہار جانب سے مظلومین پر ظلم و زیادتیوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں اپنے اعمال و افکار پر نظر ثانی کا موقع نہیں ملتا، کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ شاید اسی لیے کہ یہ عبادات جو ہم انجام دے رہے ہیں، اس کے باوجود ہمارا تعلق اپنے خدا سے وہ نہیں رہا جو مطلوب ہیہم مساجد میں تو بندگان خدا ہیںلیکن مسجد کی چہار دیواری سے باہرنکلتے ہی بندگان نفس بن جاتے ہیں۔ درحقیقت آج یہ وہ بیماری جس نے ہمارے ایمان کو حد درجہ کمزور کر دیا ہے۔ ہم ہی میں سے بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو ظالم و جابر لوگوں کا تعاون کرتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں کا جو ملتِ اسلامیہ کو منتشر کرنے کے درپے ہیں۔نہ صرف منتشر بلکہ اس کے وجود کو ہی مٹادینا چاہتے ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کی نماز یں اور ان کے روزے ان کی قربانیاں اور ان کے حج کسی کام نہ آئیں گے کیونکہ وہ اپنے افکار و اعمال سے ان لوگوں کی مدد کررہے ہیں جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے خلاف سعی و جہد کرنے والے ہیں۔ پھر یہ جن کی مدد کر رہے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ دراصل یہ وہی ظالم و جابر ہیں جنھوں نے پے درپے انبیاء ورسل کا قتل کیا نتیجتاً ان کے حصہ میں گمراہی لکھ دی گئی۔ خدا کی قسم انبیا و رسولوں کے قاتلوں کی مدداور اس کے نتیجہ میں ایک ذراسا نام و نمود، نہ اِس دنیا میں اور نہ ہی اُس دنیا میں کسی کام آئے گا۔حالات کے پس منظر میں اور مخصوص عبادت کو انجام دیتے ہوئے لازم ہے کہ کسی بھی واقعہ کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے نہ سمجھا جائے۔ کیونکہ جب کسی واقعہ ہی کو نہیں بلکہ قرآن جیسی عظیم الشان کتاب کے کسی حصے کو بھی سیاق و سباق سے الگ کر کے پڑھا، سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے تو اس کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو ہونے چاہیں۔ برخلاف اس کہ گمراہ کن لوگ اسی ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اپنے لیے مزید گناہ سمیٹتے جاتے ہیں۔
پس یہی معاملہ فریضہ حج و قربانی کی ادائیگی کا بھی ہے کہ جس کو اگر اس کے حقیقی پس منظر اور تقاضوں سے علیحدہ کرکے سمجھا جائے تو مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے لیکن اگر اس کے حقیقی فلسفہ کو خوب اچھی طرح اپنے ظاہر و باطن میں اتار لیا جائے تو ممکن ہے کہ آنے والا حج اور ادا کی جانے والی قربانی ہمارے لیے ایک نئی زندگی کی شروعات کا ذریعہ بنے گی ۔اس زندگی کا جہاں ہر غیر اسلامی افکار و نظریات سے اعلان براء ت علی الاعلان اظہار کیا جائے گا۔