تحریر : ممتاز ملک یہ سچی بات ہے کہ ہر انسان ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا . اس کا ایک ثبوت سابقہ گلوکار اور موجودہ نعت خواں جنید جمشید نے بارہا اپنے غیر محتاط انداز بیاں سے دیا ہے . کہ بات کرتے ہوئے انہیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ کس ہستی کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ کیا انداز تخاطب برت رہے ہیں ؟ اور کس کے سامنے موجود ہیں ؟ لوگوں نے ہی انہیں ڈھیل دے دیکر مولوی صاحب بنا دیا جبکہ حد ادب کاکبھی مطالبہ ہی نہیں کیا گیا . تو انہیں بھی اپنی باتوں کو ڈرامہ بنانے کے لیئے آیات اور احادیث و واقعات کو آوازیں بنا بنا کر ایک عام آدمی کی کہانی بنانے کی بھونڈی کوششوں نے بے حد شرمناک حرکت تک گرا دیا . اس واقعے کی روشی میں ان پر تاحیات منبر پر بیٹھنے اور درس دینے کی پابندی لگنی چاہیئے . اور ہم بھی جنید جمشید کی اس بھونڈی ڈرامہ بازی پر ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
لیکن اس کے مقابل کسی بھی شخص کو سر عام روک کر اس کی اہانت کرنا اور اس پر حملہ کرنا کیا کسی قوم کے اعلی کردار کا آئینہ دار ہو سکتا ہے . کسی صورت نہیں کہ ہمارا دین ہمیں صبر تحمل اور بردباری کا درس دیتا ہے . جبکہ یہ حرکتیں نیم ملا خطرہ ایمان کی نشاندہی کر رہی ہیں . دنیا بھر میں ان نیم ملاوں کے شر پسند شاگردوں نے پاکسان کو بدنام کر رکھا ہے . ان پر گرفت کرنا بے حد ضروری ہے. ورنہ یہاں کسی کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہیگی۔
ہم.اس کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ایسا کرنے اور کرانے والوں اور انہیں اکسانے والوں کی مرمت کرنے کا بھرپور مطالبہ کرتے ہیں . یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہ سب کرنے والے را کے ایجنٹس ہیں جو پاکسان میں بدامنی پھیلانے اور دنیا بھر میں ایک منتشر قوم کی شبیہہ پیش کرنے کے لیئے ایسے ٹٹووں کو خرید کر انہیں دین کی آڑ میں استعمال کر رہی ہے جب کہ ان کا دین کی د سے بھی کوئی واستہ نہیں ہے . اس کا علاج تبھی ممکن ہو گا جب ہم مولوی صاحبان اور علماء کرام میں اصل.اور نقل کی پہچان کر سکیں۔
Muslims
اس کافی زمانہ سب سے بڑا مددگار ہر ایک مولوی صاحب اور عالم کی ڈی این اے رپورٹ بنوائی جائے . جو ان کی ذات اور نسل کی صحیح پہچان با سکتی ہے کہ یہ لوگ واقعی پاکستانی اور مسلمان ہیں یا نہیں …اور اگر نہیں تو ان کو سر عام پھانسی دی جائے جنہوں نے ہمارے دین کا مذاق بنانے کی نا پاک جسارت کی ہر انسان آذاد پیدا کیا گیا ہے اور اللہ اسے ایک الگ دل اور دماغ دیکر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہر انسان اپنی سوچ میں آزاد ہے . رب کائینات نے یہ حق کسی انسان کو نہیں دیا کہ وہ دوسرے انسان کی سوچ پر مسلط ہونے کی کوشش کرے اگر ایسا ہوتا تو صدیوں کی تبلیغ کرنے کی کسی پیغمبر کو کوئی ضرورت نہ تھی۔
اللہ پاک انہیں خود سے مجبور کر دیتا کہ مخلوق اس کے تابع آ جائے . جب کہ ایسا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی کو اختیار نہیں دیا گیا . اور ہر انسان کو اپنی سوچ اور فکر میں آذاد رکھا گیا ہے . تو آج کیا ایسا نرالا ہو رہا ہے وہ بھی ہمارے ہی ملک میں کہ کبھی ہم غیر مسلموں کو ذبردستی ڈنڈے کے زور پر مسلمان کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم مسلمانوں کو بھی ہماری مرضی کے خلاف بات کرنے پر کہیں کافر تو کہیں مرتد کہہ کر کبھی سر راہ انکی عزت اچھالنے اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرتے پھرتے ہیں۔
ہر انسان اپنی رائے رکھنے میں خواہ وہ.کسی بھی موضوع پر ہو مکمل آذاد ہے . ہم صرف اپنے اچھے اخلاق اور اپنے اچھے کردار سے اسے اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں .ڈنڈا ہاتھ میں.لیکر اسے قتل تو کر سکتے ہیں مرعوب نہیں۔