عیسائیوں نے مسلمانوں پر اپنی شیطانی تہذیب کو مسلط کرنے کے لیے مختلف طریقے اور قانون بنا رکھے ہیں۔ اس سے قبل اسی قانون کے تحت امریکا، مسلمان ملک سعودی عرب،ایران ا ور سوڈان کوبلیک لسٹ میں شامل کر چکا ہے۔ ہم، اِس سے قبل کئی بار قرآن کی آیات کی طرف حکمرانوں کو متوجہ کرتے آئے ہیں کہ قرآن میںہے کہ یہودو نصارامسلمانوںکے کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان ان جیسے نہ ہوجائیں۔یعنی ان کی تہذیب اختیا نہ ر کر لیں۔ہم اس وقت طرف پاکستان کی امریکی کے ساتھ نام نہاد دوستی کا ذکر ہیں۔امریکا نے دوستی کی آڑ میں پشاور کے بڈھ بیر کے ہوئی اڈے ے اپنا جاسوس جہاز، روس کی سرزمین تک اُڑیا۔جسے روس نے مار گرایا تھا۔ اسی وجہ سے روس پاکستان کا مخالف ہو ا اور اس کا بدلہ، روس نے مشرقی پاکستان توڑنے میں اپنی ایٹمی گن بوٹس سے بھارت کی مدد کی تھی۔١٩٦٥ء کی بھارت پاکستان جنگ میں امریکا سے خریدے گئے اسلحہ کے پرزے پاکستان کودینا روک دیے تھے۔ ایف سولہ جہازوں کی پیشکی قیمت ادا کرنے کے باوجود جہاز نہیں دیے۔بلکہ سوابین تیل دیا تھا۔بعد میں افغان جنگ کے وقت کچھ جہاز دیے تھے۔مشرقی پاکستان پر بھارت کے حملے پر بھی کہا تھا کہ چھٹابہری بیڑا پاکستان کی مدد کی لیے چل پڑھا ہے۔
چھٹا بہری بیڑا مشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضے تک نہیں آیا۔ ہاں اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے اپ نے کتاب میں لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان توڑنے میں امریکا بھی ہاتھ تھا۔اب امریکا پاکستان کے خلاف بھارت اوع افغانستان کو استعمال کر رہا ہے جس کیوجہ سے پاکستان میں دہشت گردی عروج پر رہی۔امریکا اور مغرب کو اسلامی اور ایٹمی پاکستان ہرگز گوارا نہیں۔ امریکا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان نے سویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے میں امریکا کی مدد کی تھی۔اس طرح امریکا کو یک قطبی لیڈر بنانے میں پاکستان کا کردار تھا۔ ویسے تو پاکستان بننے کے وقت بھارت کے ظلم و زیادتی کے خوف سے بچنے کے لیے حکومت پاکستان نے امریکا سے دوستی کرنی مجبور تھی۔اصل میںجو مسلمانوں ملک برطانیہ سے آزادہوئے تھے انہیں امریکا کے حوالے کرنا شرع کیا تھا تاکہ مستقل غلام بنے رہیں۔ اس کے پیچھے وہی حکمت عملی تھی کہ مسلمانوں کی کی کمزوریوںسے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان پر اپنے تہذیب مسلط کر دی جائے۔ مسلمانوں نے اپنی دور میں روما کی سلطنت کو شکست دی تھی یہ اسی کا بدلہ لینا تھا۔جب مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم کے بعد ختم کیا گیا تھا تو صلیبیوں نے عثمانی سلطنت کو کئی راجوڑوںمیں تقسیم کیا تھا ۔اپنے پھٹو مسلمان حکمران عام مسلمانوں پر مسلط کیے تھے ۔ آج تک اسلامی ملکوں نے امریکا سے اپنی جان نہیں چھڑائی، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
شاعر اسلام علامہ اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں اور امت مسلمہ کو اس بات سے بار بار خبردار کیا۔ مگر علماء سو نے علامہ اقبال پر کفر کے فتوے لگائے اور حکمرانوں نے ان کی بات بھی نہیں سنی۔ بلکہ اب تو پاکستان میں تعلیمی نصاب میں سے علامہ اقبال کے کلام تک کو نکالا جا رہاہے۔ علامہ اقبال کی سالانہ چھٹی تک کو ختم کر دیا۔امریکی فنڈڈ پاکستانی الیکٹرنک میڈیا نے علامہ اقبال کے خلاف پروگرام کیے۔ قاعد اعظم کو سیکولر ثابت کرنیکی ایک مہم چلائی ہوئی ہے۔ ملک میںکئی ویب سائٹس پرقائد اعظم کے اسلامی وژن اور دو قومی نظریہ کی نفی کی جاتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی کہ امریکا نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔ بلکہ اس سے قبل پاکستان کے خلاف صلیبی ایک اور بھی سازش کر چکے ہیں۔برطانیہ اور امریکا نے یہود کی شہ پر پاکستان میں مسلمانوں میںتفرقہ ڈالنے اور مسلمانوں میں سے جہاد ختم کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو ایک جعلی نبی بنوا کو پاکستان میں لگایاتھا۔ اس نے برطانیہ کی ملکہ کو ایک خط کے ذریعے لکھا۔میںنے اپنے کتابوںمیں نے آپ کی خواہش کے مطابق وسیع کام کیا ہے۔ مسلمانوں میں سے جہاد کے فلسفہ کو ختم کر دیا ہے۔ جہاد مخالف کتابوںسے برصغیر کی لابریئریاں بھر گئیں ہیں۔جب سے مرزا قیادیانی نے نبی ہونے کا دعوی ٰ کیا تھا۔
علماء حق نے بھی قوت سے مرزا غلام احمد قادیانی کا کیا تھا۔ اس پر مولانا موددی اور عبدالستار نیازی کو موت کی سزا بھی عدالت نے سنائی تھی۔ علماء نے بڑی کوششیں کر کے ١٩٧٤ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں قادیانوں کو جمہوری طریقے سے پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث مباثے کے بعد اسلام سے خارج کر دیا گیا تھا۔ مراز کاذب نبی نے لکھا کہ جو اس کو نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ یعنی ڈیڑھ عرب مسلمان کافر ہو گئے اور صرف مرزاکو نبی ماننے والے قایادنی مسلمان ہیں۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو پورا موقعہ فراہم کیا تھا ۔ شاید اس نیک اور تاریخی واقعہ جس میں بھٹو نے امت مسلمہ کی جان چھڑائی، اللہ محروم بھٹو صاحب کی غلطیاں معاف فرما کر جنت میں داخل کردے۔ امریکا اُسی ہی روز پاکستان کے آئین سے اس شک کو ختم کرانے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔کبھی آئی ایم ایف ے قرضہ لینے کے موقعہ پر یہ شرط ڈلواتا رہتا ہے۔ دوسری طرف آج تک قادیانیوں نے پاکستان کے آئین کو نہیں مانا، بلکہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ قادیانی عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں اور کہتے ہیںکہ ہم مسلمانوں کے شیعہ ،سنی، دیوبندی اور اہل حدیثوں کی طرح ایک فرقہ ہیں ۔جب کہ پاکستان کے آئین نے ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ نہیں بلکہ غیر مسلم قرار دیا۔
جب تک قادیانی اپنے آپ کو اقلیت نہیں مانتے اُس وقت تک پاکستان کے آئین کے باغی ہیں۔ان کو اقلیتوں کے بھی حقوق حاصل نہیں ہونے چاہییں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو شہری ہونے کے ناتے پورے حقوق حاصل ہیں جبکہ قادیانی آئین پاکستان کے باغی ہیں۔ کیا دنیا میں کسی کو اس ملک، جس میں وہ رہتا ہے کہ قانون و آئین کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ کیا مسلمان جن مغربی ملکوں رہتے ہیں ان ملکوں کے آئین و قانون کی مخالفت کر کے ان ممالک میں رہ سکتے ہیں؟ پاکستان میں ہندو سکھ پاکستان کے آئین کو مان کر رہی رہ رہے ہیں۔ حکومت نے سکھوں کے متبرک شہر کے لیے اپنی سرحد کھولی دے ہے۔ جس سے پاکستان کی سکھ اقلیت نے خوشی کا جشن منایا۔ اس لیے امریکا کو چاہیے کہ بین لاقوامی قانون کی پابندی کرے اور دھونس دھاندلی کی پالیسی سے رجوع کرے۔اپنے قادیانی ساتھیوں اس بات پر قائل کرے کہ وہ پاکستان کے آئیں قانون تسلیم کروپھر میں تمہاری مدد کرنے کا حق بجانب ہو سکتا ہوں۔حکومت نے امریکی الزام کو مسترد کر کے امریکی سفارت کو دفتر خارجہ طلب کر شدید احتجاج کیا ہے۔
شرین مزاری صاحبہ اپنا رد عمل دیا کہ امریکا یوپری یونین کے طرف دیکھے جس میں عبادت گاہیں پابندی کی زد میں ہیں۔ ہندوئوں کے وفد کے لیڈر جو پاکستان آئے ہوئے ہیں جن کا نام شیو پرتاب بجاج ہے نے بیان دیا ہے کہ پاکستان میں ہمارے مذہبی مکامات جن میں کٹاس راج،سادھو بیلہ،انگلاج ماتا اورکرشنامندر سمیت پاکستان میں مندراور عبادت گاہیں محفوظ ہیں۔ سکھ بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں سکھوں کے گروداوارے محفوظ ہیں۔ امریکا کو کشمیر میں مظالم اور مذہبی بابندیاں نظرنہیں آتیں۔ جہاں مسجدیں بند کر دی جاتی ہیں۔درگائوں کو جلایا گیا۔ جمعہ کی نماز پر پابندی لگائے جاتے ہیں۔بلیٹ گن چلا کر انسانوں کو اندھا کر دیا جاتا ہے۔ ایک جانور گائے کے نام پر انسانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔سکھوںکے گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کی گئی تھی۔ دوسری وجہ پاکستان کی امریکا کی ڈور مور حکم نہ ماننا ہے۔ حکومت پاکستان نے اپنے ملک کے مفاد سامنے رکھ کر فیصلے کیے ہیں جس عوام مطمئن ہیں۔ امریکاایک طرف طالبان سے بات چیت کرانے کی درخواست کرتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو اپنی نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل کر تا ہے۔ جو سرا سر ایک زیادتی ہے۔