مذہبی پارلیمنٹیرین سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں

Tax

Tax

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
یقینا آپ کو بھی اِس پر حیرانگی اور پریشانی لا حق ہوگی کہ جو ہمیں مُلک و قوم ترقی اور خوشحالی کے خاطر ایمانداری اور حب الوطنی سے ٹیکس اداکرنے کی تلقین کرتے ہیں دراصل یہ خود ٹیکس کی ادائیگی میںکھلے عام ڈنڈی مارتے ہیں یہ ٹیکس چور پارلیمنٹیرین جب خود ایسا کرتے ہیں تو پھر بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ کس منہ سے قوم سے پوراٹیکس اداکرنے کی اپیلیں اور درخواستیں کرتے ہیں،کیو نکہ ایسا کرکے یہ ٹیکسوں میں ڈنڈیاں مارنے والے قوم کو بے وقوف بنا تے ہیں کہ یہی مُلک اور قوم کے اصل ہمدرد اور اصل محب الوطن یہی لوگ ہیں افسوس ہوتا ہے جب یہ لوگ مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر اپنی معصوم قوم سے قربانی دینے اور کڑوی گولیاںنگلنے کا کہتے ہیں۔

خبرہے کہ ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق انکشاف سا منے آیا ہے کہ خود کو صریحاََ ایمانداراور امین گرداننے والے مگر بظاہر ارب پتی جیسی زندگی گزارنے والے ہمارے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مذہبی و دیگر جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے سب سے کم ٹیکس اداکیا ہے مگراِس انکشاف میں سے یہ انکشاف بھی کھل کر عیاں ہوگیا ہے کہ با لخصوص بعض علما کرام نے ٹیکس ادا کرنے کی تو زحمت ہی گوارا نہیں کی تویہ خود کو کیسے ؟سب سے بڑا ایماندا ر اور امین بھی گردانتے ہیں؟؟جبکہ خا ص طور پر مُلکی سیاست میں خصوصی مقا م اور منفرد لب و لہجہ اورپہچان رکھنے والے جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے50181روپے،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولاناعبدالغفورحیدری نے417404روپے،امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے34941روپے ، سینیٹرحافظ حمد اللہ نے 50181روپے،سینیٹرساجدمیرنے 20344،مولاناگوہر شا ہ نے 17470روپے، ایم این اے قا ری یوسف نے 39741روپے قومی اسمبلی میں اسلامی کے پارلیما نی لیڈر صاحبزادہ طارق اسد نے 34941روپے صا حبزادہ یعقوب نے 19470روپے محمود خان اچکزئی نے 17470روپے، مولانا عبدالواسع نے1.8ملین روپے مشاہد حسین سید نے صرف 51 ہزارروپے جبکہ یہ ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ پانا ما میں 34آف شور کمپنیوں کے ما لک سینیٹرعثمان سیف اللہ نے مُلک و قوم بڑا احسان کرتے ہوئے صرف 22لاکھ روپے ٹیکس ادا کرے۔

اپنی تمام کما ئی کو جا ئز بنا لیا ہے جبکہ دیکھا جا سکتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر درجہ بالا اراکین کی ٹیکس ادائیگیوں کی رقم ایک جیسی ہے اِس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِس میں ضرور دال میں کچھ کالا ہے ؟؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اِن کی آمدنی ایک جیسی ہو؟ اور اِن کی ٹیکس ادائیگی کی رقم میں بھی یکسا نیت پا ئی جا ئے ؟؟ اَب کیا اِس معاملے کی تحقیقات کرنے اور جے آئی ٹی بنا نے کی ضرورت نہیں ہے؟کیو نکہ جتنا ٹیکس اِن لوگوں نے اداکیا ہے اِن سے زیادہ ٹیکس توصوبا ئی اوروفاقی اداروں کے سرکاری ملازمین اورسرکاری اداروں میں کام کرنے والے چپراسی اور جھاڑودینے والے اداکرتے ہیں مگر کم ٹیکس دینے والے اپنے مذہبی پارلیمنٹیرین کی طرح زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیںیہ بچارے زائد ٹیکس دے کر بھی اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور پُرآسا ئش زندگی سے بھی محروم رہتے ہیں جبکہ ….؟؟۔بہر حال ، آج مایوسیوں کی دلدل میں دھنسا پاکستان کا ہر فردیہی سوال کرتا دِکھا ئی دیتا ہے کہ پا کستان کب ترقی کرے گا ؟؟ اور پاکستانی قوم کب خوشحال ہوگی ؟؟ شا ید میری ضرورت سے زیادہ معصوم قوم کو کچھ نہیں پتہ ہے کہ کب پاکستان ترقی کر کے اُوجِ ثریا کی بلندیوں کو چھوئے گا ؟؟ اور کب طرح طرح کے بحرانوں اور مسا ئل میں گھیری پاکستانی قوم کو پریشا نیوں سے نجات ملے گی؟؟ اور کب اِس کے بھی اچھے دن آئیں گے ؟؟ اِن سوالات کے جوابات پاکستانی قوم تو اپنے آف شور کمپنیوں کے مالکان اگلے پچھلے سِول و آمر حکمرانوں اورٹیکسوںکی ادائیگیوں میں گردن تان کراور سینہ پھولا کرڈنڈی مارنے والے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سیاستدانوں سے کا فی عرصے سے ما نگ رہی ہے۔

مگر افسوس ہے کہ قوم کو کہیں سے بھی تسلی بخش جوا ب نہیں مل سکا ہے ، مگرملتا بھی توکیسے ؟؟اور کون دیتا ؟؟کیو نکہ کوئی بھی حکمران اور سیاستدان کبھی بھی قوم کے اِن سوالا ت کے تسلی بخش جوا بات دینے کو سنجیدگی سے تیار ہی نہیں رہا ہے اور نہ موجود ہ سیاستدان اور اراکین پارلییمنٹیرین اندرونی اور بیرونی حالات کے تناظر میں کہیں سے تیاردیکھا ئی دیتے ہیں اِس لئے کہ پاکستانی قوم کو تو سیاستدانوں اور مذہبی پارلیمنٹیرین نے ابھی تک وطن اور اسلام دُشمنوں کی سازشوں سے ڈرادھمکارکھا ہے اور اِسی کو بنیا د بنا کراپنی چکنی چپڑی مفا ہمتی اور مصالحتی پالیسیوں اور لچھے دار باتوں میں اُلجھاکر گھن چکر بنا رکھا ہے،یوں یہ بیچا ری پاکستانی قوم پچھلے ستر سالوں سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم مسائل اور پریشانیوں میں جکڑتی چلی گئی ہے اورنصف صدی سے بھی زائد عرصے سے اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور مسائل سے نکلنے کی بھیک مانگتی پھررہی ہے یہ بیچا ری تو سیاستدانواور مذہبی پارلیمنٹیرین کے پیچھے محض اِس لئے بھاگتی ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہی اِس کے حاجات روااور مسیحا ہیں مگر ایسا ہرگز نہیںجیسا اکثر پاکستانی قوم اپنے حکمرانو، سیاستدانو اور مذہبی پارلیمنٹیرین کو سمجھتی ہے کیو نکہ آج حق و سچ یہی ہے کہ مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے دعویدار ہما رے یہ ٹیکس چور حکمران اور اراکین پارلیمنٹیرین کب ایماندار اور امین نہیں رہے ہیں۔

اِس پر کیا ہر پاکستانی اِنہیں بھی نا اہل تصور نہیں کرسکتاہے اِس لئے کہ خبر آئی ہے کہ لو جی، عام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے قا ئدین اور اراکین پا رلیمنٹ کی طرح مذہبی جماعتو ں کے سربراہان اور قائدین مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق ،مولانا غفورحیدری اور دیگر بھی ٹیکس میںڈنڈی مارتے ہیں گویا کہ مذہبی پا رلیمنٹیرین سب سے کم ٹیکس دینے والوں میں شا مل ہیںیہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا یہ کھلم کھلا آئین کی آرٹیکلز 62/63کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں ؟؟ کیا یہ ایما ندار اور امین کہلا ئے جا نے کے لا ئق ہیں؟؟ چور، چورہوتا ہے آنے کی کرے یا دو آنے کی ،کوئی کسی سے تنخواہ لینے یا نہ لینے کا معا ملہ ظاہر کرے یا نہ کرے جب ایسا شخص آئین کی آرٹیکلز 63/62کے تحت پورا نہ اُترنے پر نا اہل قرار دیاجا سکتا ہے تو پھر موجودہ ایوانِ نمائندگان (با لخصوص مذہبی پارلیمنٹیرین مولانا فضل الرحمان ، مولانا غفورحیدری ، سراج الحق اور دیگرجو بظاہر اپنی ارب پتی زندگی گزارتے ہیں مگراپنی آمدن سے بہت کم ٹیکس دیتے ہیں جہاں یہ قومی مجرم اور ٹیکس چوری ہیں تو یہ ایماندار اور امین بھی نہیں رہے ہیں )نا اہل قرارکیوں نہیں ہوسکتے ہیں، پاکستانی قانون کے مطابق اِنہیں بھی نا اہل قراردیا جائے۔

بہر کیف ، یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مذہبی پارلیمنٹیرین جو اپنی سالانہ آمدن پر پوراٹیکس تو ادانہیں کرتے ہیں پھر بھی قوم سے اُمید رکھتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی سے محروم قوم کے غربیوں سے تعلق رکھنے والاایک بڑاسرکاری طبقہ ما ہانہ اپنی تنخواہ اپنے ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی ہزاروں اور سالانہ لاکھوں روپے ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں قومی خزا نے کو دے مگر پھر بھی سرکا ری ملازمین کا یہ طبقہ مذہبی پارلیمنٹیرین سے زیادہ ٹیکس دے کربھی کسمپرسی اور لا چارگی کی زندگی گزارتاہے اور تنخواہ دار طبقے سے ماہانہ ہزاروں روپے اور سالانہ لاکھوں روپے ٹیکس وصولی کی مد میں لینے والے ادارے ایف بی آر کی جھولی تو ہمیشہ ہی سے سرکاری ملازمین سے ٹیکس لینے کے لئے پھیلی رہتی ہے کبھی یہ بھرتی بھی نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ ایف بھی آر نے صرف سرکارملازمین کی ٹیکس وصولی والی جھولی میں سُوراخ کررکھا ہے اِس جھولی میں سرکاری ملازمین جتنا چا ہیں ٹیکس ڈال دی یہ کم بخت کبھی بھر کر نہیں دیتی ہے جبکہ مذہبی پارلیمنٹیرین اپنے سائیدبزنس کے علاوہ ایوان سے تنخواہ کی مدمیں ما ہا نہ لا کھوں اورسالا نہ کڑوروں روپے کما کر بھی چند ہزاروں میں ٹیکس اداکرتے ہیں اور بادشاہوں اور شہنشا ہوں کی طرح عیش و طرب والی زندگی بھی یہی لوگ گزارتے ہیں اِدھر بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایف بی آرکی جھولی اِن مذہبی پارلیمنٹیرین سے ذراسی ٹیکس وصولی سے لبا ب بھر جا تی ہے مگراُدھربڑی حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ مُلک کے بیچارے اپنی تنخوا ہ ہا تھ میں آنے سے پہلے ما ہا نہ ہزاروں اور سالانہ لا کھوں روپے با قاعدگی سے(کم ازکم معروف مذہبی پارلیمنٹیرین سے زیادہ ) ٹیکس ادا کرنے والے سرکاری ملازمین تن پر کپڑے ، پیٹ میں روٹی اور زمین پر گھر سے اور اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں جبکہ ایوانِ نمائندگان خا ص طور پر مذہبی پارلیمنٹیرین ٹیکس میں ڈنڈی مارکربھی خود کو سب سے زیادہ محب وطن پاکستانی ہونے اور مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے دعویدار بھی سمجھتے ہیں د ہت تیری کی۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmal.com