تحریر : میر افسر امان مثل مدینہ، مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں دینی جماعتوں کے اجتماعات کو دیکھ کر ہر مسلمان کا دل انتہائی خوش ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کچھ جزوی اختلافات کو چھوڑ کر پاکستان کو وجود میں لانے میں ان سب دینی جماعتوں کی جد و جہد شامل ہے جس میں مسلمانوں کے دونوں بڑے فرقے بھی دل و جان سے شامل تھے۔ قائد اعظم کی طلسماتی شخصیت نے سب کو ایک نقطے پر جمع کر دیا تھا ۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز جسے مسلمان خلیفہ راشد پنجم کہتے ہیں کے دور میں دونوں فرقوں کو یک جا کیا گیا تھا۔ مسلمان اب بھی ایسے ہی کی لیڈر کی تلاش میں ہیں ۔پاکستان بننے کے وقت جیسا ماحول پیدا کر کے ہی ہم پاکستان کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ ہمارا دشمن پڑا چالاک ہے وہ ہمیں ایک نہیں ہونے دیتا اگر ہم دو بڑے فرقوں کا اختلاف١٥٠٠ سال پہلے نہ حل کر سکے تو اب ہم ایک دوسرے کو کافر کہہ کر کیسے حل کر سکتے ہیں ۔ اپنے عقیدے پر قائم رہیں اور دوسرے کے عقیدے کو نہ چھیڑیں ۔ اس کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ کر دے گا۔ہمارا دشمن تو ہمیں مسلمان سمجھتا ہے اور ہمیں ختم کر رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اس پر اہل دانش کو غور وفکر کرنا چاہیے۔
پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا اس کے بنانے میں سب مسلمان شامل تھے۔ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ہی نعرہ، پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ ا لا ا للہ” دیا تھا جس پرمستانہ وار اسلام کے پروانوں نے نچھاور ہو کر پاکستان حاصل کیا تھا۔ اسی عہد کی تجدید کے لیے دینی جماعتیں اپنے اپنے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں۔ا بھی ابھی جمعةالدعوة کا دو دن اجتماع پاکستان لاہور میں منعقد ہوا ۔ اس سے قبل جماعت اسلامی پاکستان کا تین دن کا اجتماع یہیں مینار پاکستان لاہور پر منعقد ہوا تھا۔ اس سے قبل تبلیغی جماعت کا اجتماع رائے ونڈ لاہور میں ہوا۔ دعوت اسلامی کا اجتماع بھی مسلسل ہر سال ہو تا ہے۔ دوسری چھوٹی چھوٹی دینی جماعتیں بھی اپنے اپنے سالانہ اجتماع منعقد کرتی رہتی ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا اپنے دین کے ساتھ والہانہ محبت اور عقیدت کا سوال ہے ان کا مقابلہ دنیا کا کوئی بھی مہذب نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ دشمن اس کے اس اتحاد کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے ہیں۔ اسلامی دنیا میں مسلمانوں کے بڑے فرقوں کو لڑانے کی بین القوامی سازشیں تو عام مسلمانوں کو بھی معلوم ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے پاکستان کے اندر ایک فرقے پر بے در پے حملے ہورہے ہیں ۔اسی طرح دوسرے فرقے کے لوگوں کو بھی بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے ۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے واجبی سا احتجاج کرنے کے بعد دونوں فرقے پاکستان میں ایک دوسرے کے خلاف احتیاط سے کام لے رہے ہیں یہ ان کی بالغ نظری کا ثبوت ہے۔ اس تجزیے کے بعد ہم جمعةالدعوة کے اجتماع کی بات کرتے ہیں۔ اس جماعت کے دو روزہ اجتماع جو مینار پاکستان کے سائے میں منعقد ہوا، اس سے ہمیں بڑی توقعات ہیں۔١٩٨٥ء میں قائم کی گئی یہ دینی پارٹی اب اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عام مسلمانوں میں دل کر گئی ہے۔اس کی وجہ دین کے علاوہ اس کی فلاحی خدمات بھی ہیں۔
Pakistan
اس اجتماع میں جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی تقاریر ہوئیںاس سے دنیا میں امن کا پیغام پہنچے گا کہ پاکستان ایک معتدل و متحد اسلامی ملک ہے۔ایسا قطعاً نہیں ہے جیسے اس کے مخالف ممالک خاص کر اس کا ازلی دشمن ہندوستان دنیا میں اسے پیش کرنے کی بھونڈی کوششیں کرتا رہتا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دینی جماعتیں رنگ نسل ،علاقیت وصوبائیت اور فقہ واریت کے بتوں کو توڑ کر تمام اہل پاکستان کو ایک جسم کی مانند متحد کر رہی ہیں۔اس اتحاد سے پاکستانیوں میں اتفاق اتحاد اور بدامنی سے نجات بھی ملے گی۔اسی مینار کے نیچے ٧٤ سال پہلے برصغیر کے مسلمان اکٹھے ہوئے تھے اور عزم کیا تھا کہ پاکستان لے کر رہیں گے۔اب اس ہی مینار کے نیچے جمع ہو کر یہ عہد کر رہے ہیں کہ تمام اہل پاکستان اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا دیں گے اور یک سو ہو کر پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے کام کریں گے۔اس کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔
گو کہ جمعةالدعوةکو اپنے راستے سے ہٹانے کی کو ششیں کی گئیںلیکن دینی بصیرت و فہم رکھتے ہوئے اس جماعت کے قائدین و کارکنان نے اس سب کو ناکام بنا دیا۔ بیشک سب کلمہ پڑھنے والے مسلمان ہیں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ان کی جان ومال ایک دوسرے کے لیے حرام ہے۔ اتحاد اور اتفاق کے پیغام کو ہمارے پرنٹ اورالیکٹرنگ میڈیا کو بھی مثبت انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چایئے جس کا فقدان محسوس کیا گیا ہے۔ جمعةالدعوة کے اجتماع میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ مینار پاکستان پر ایک نیا شہر آباد ہو گیا تھا۔ جس پروگرام کو دوسری صبح شروع ہونا تھا اجتماع کی کاروائی شام کو ہی شروع ہو گئی ۔ تہجد کی آذان دے کر تہجد کا بھی
اہتمام کیا گیا ۔ پہلے روز کی دوسری بڑی نشست میں مولانا قاری سبحانی آف سندھ نے پشتو اور سندھی میں پر جوش خطاب کیا۔ اس کے بعد رات دو بجے تک خطاب ہوتا رہا۔ ان کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کا روح پرور اجتماع بھی ہوا۔ جس نے زلزلے اور سیلاب کی مصیبت میں پاکستانیوں کی داد رسی کی تھی۔ حافظ عبد الغفار المدنی کی نصیحت آموز خطاب سن کر سامعین کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔مجائدوں غازیوں کے ورثا کی بھی ایک نشست بھی ہوئی جسے مولانا نصر جادید نے سجایا تھا۔ تھر پارکر کے ایک ہندو نے اسلام قبول کیا۔ ایک عیسائی نے بھی اسلام قبول کیا۔ جماعة الدعوة نے پاکستان میں نظریہ پاکستان کہ مہم شروع کی ہوئی ہے جس کا مقصد دینی اور سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ دو رزہ اجتماع میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اس میں پروگرام میں شرکت کے لیے تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کو دعوت دی گئی تھی جس میں سے پیشتر نے شرکت بھی کی۔ اس اجتماع کاخاص سیشن” نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے” تھا۔ اس سیشن سے خطاب کرتے ہوئے جمعةالدعوة کے سربراہ جناب حافظ محمد سعید نے پاکستان ،دنیا اور اس کے ارد گرد کے ماحول پر سیر حاصل خطاب کیا انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر طرف بدامنی اور انتشار ہے اور یہ کام پاکستان کے دشمنوں نے کیا ہے۔ ہم نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا اور اب ہم اسی بنیاد پر اسے متحد رکھ سکتے ہیں یہ کام ہم سب نے مل کر کرنا ہے۔ اللہ ہمارے پاکستان کا حامی و مدد گار ہو آمین۔